شادی کرتے وقت باپ کی اجازت کا ساقط ہونا
اگر کوئی لڑکی شرعا ً اور اپنے ماحول کے اعتبار سے اپنی شان کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہو تو کیا باپ کی اجازت ساقط ہے ؟
مسئلہ کے فرض میں اگر اس کا باپ مخالفت کرے تو اس کا اذن ساقط ہے ۔
مسئلہ کے فرض میں اگر اس کا باپ مخالفت کرے تو اس کا اذن ساقط ہے ۔
جواب:۔ نکاح متعہ ایک ہی قسم کا ہوتا ہے اس سے زیادہ نہیں اور یہ سب فوائد اورنتائج اس میں جمع ہیں مگر یہ کہ عقد متعہ کے ضمن میں یہ شرط رکھیں کہ جنسی تعلقات نہیں ہوں گے اور ہر حال میں، باپ کی اجازت کا حکم شرط ہے .
جواب:۔ نکاح متعہ ایک ہی قسم کا ہوتا ہے اس سے زیادہ نہیں اور یہ سب فوائد اورنتائج اس میں جمع ہیں مگر یہ کہ عقد متعہ کے ضمن میں یہ شرط رکھیں کہ جنسی تعلقات نہیں ہوں گے اور ہر حال میں، باپ کی اجازت کا حکم شرط ہے .
جواب:۔ دونوں صورتوں میں احتیاط واجب، ولی سے اذن حاصل کرنا ہے، البتہ تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تعلقات خصوصاً جوانوں میں، عام طور پر ایک حد تک محدود نہیں رہتے اور آہستہ آہستہ بڑھتے رہتے ہیں اور بہت سی مشکلات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں .
پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت کو تمکین دینے سے پہلے ، مہر مانگنے کا حق ہے ، حتی اگر شوہر مہر ادا کرنے پر قار بھی نہ ہو ، دوسری بات یہ ہے کہ اگر شوہر کے پاس مہر کی (رقم ) نہیں ہے تو نفقہ دےتیسری بات یہ ہے کہ اگر یہی صورت حال مدتوں تک باقی رہے اور زوجہ کے نقصان یا شدید مشقت کا باعث ہو تو حاکم شرع شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے اور اگر طلاق نہ دے تو حاکم شرع طلاق دیدے گا اور آدھا مہر شوہر کے ذمہ ہوگا اس وقت تک جب تک وہ ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت کو تمکین دینے سے پہلے ، مہر مانگنے کا حق ہے ، حتی اگر شوہر مہر ادا کرنے پر قار بھی نہ ہو ، دوسری بات یہ ہے کہ اگر شوہر کے پاس مہر کی (رقم ) نہیں ہے تو نفقہ دےتیسری بات یہ ہے کہ اگر یہی صورت حال مدتوں تک باقی رہے اور زوجہ کے نقصان یا شدید مشقت کا باعث ہو تو حاکم شرع شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے اور اگر طلاق نہ دے تو حاکم شرع طلاق دیدے گا اور آدھا مہر شوہر کے ذمہ ہوگا اس وقت تک جب تک وہ ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا ۔
یہ کام حرام اور گناہ ہے ،لیکن اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ دخول نہیں ہوا تھا اس لئے ایک دوسرے پر حرام موبد نہیں ہیں ۔
جواب :۔ بھائی کی اجازت معتبر نہیں ہے اور اس کو اطلاع نہ دینا خیانت شمار نہیں ہوگا لیکن اس سے مشورہ کرنا مناسب ہے .
دو صورتوں میں ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی ، ایک یہ کہ شادی کرے اور دخول بھی کرے اگرچہ جہل اور نادانی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو ، دوسرے یہ کہ مسئلہ جانتے ہوئے شادی کرے اگر دخول نہ بھی کرے ۔
ایسے موارد میں ، عورت کو حاکم شرع کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور حاکم شرع مرد کو ایک سال کی مہلت دے گا ، اگر علاج ہوگیا تو ، شادی باقی رہے گی ورنہ عورت نکاح کو فسخ کرسکتی ہے ، اور طلاق کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، لیکن اگر فسخ کرنے کے بعد مردٹھیک ہوجاتاہے تو دوبارہ عورت کی طرف رجوع کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے مگر نئے عقد کے ذریعہ ۔
جواب:الف۔اگر مشاہدہ کا دعویٰ نکرے تو کوئی خاص رسم کیےٴ بغیر اس کے ساتھ ازدواجی زندگی کو جاری رکھ سکتا ہے، لیکن اس پر جو الزام لگا یا ہے اس سلسلہ میں زوجہ حاکم شرع کے یہاںحد قذف (الزام لگانے کی سزا) کا تقاضا کر سکتی ہے (اس کی سزا اسّی کوڑے ہیں) مگر یہ کہ زوجہ اس کو معاف کردے .جواب: ب:۔جی ہاں لازم ہے ( ازدواجی) زندگی جاری رکھے .جواب:ج۔اگر شوہر طلاق دینے پر راضی ہو جائے تو کوئی اشکال نہیں ہے .
جواب:۔اگر نہی عن المنکرکو ترک کرے تو فاسق ہے .