سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

مضاربہ میں سود کو معین کرنے کے صحیح ہونے کے شرائط

کوئی شخص کچھ رقم کسی شخص کے اختیار میں دے دیتا ہے تاکہ اس سے تجارت کرے اور اس سے حاصل شدہ منافع کو دو برابر حصوںمیں تقسیم کریں ، اور چونکہ رقم لینے والا شخص کوئی دوسرا حصہ دار ہے جس کی وجہ سے وہ تجارت وغیرہ سے حاصل شدہ منافع کا دقیق طرح سے، حساب نہیں لگا سکتا ہے ، اس وجہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ یہ رقم مثال کے طور پر ہر ایک لاکھ تومان پر تقریبا تین ہزار تومان مہینہ ، ہر شخص کا منافع ہوگا ، کیا یہ مضاربہ صحیح ہے ؟

یہ مضاربہ تین شرطوں کے ساتھ صحیح ہے۔(الف)یہ کہ مضاربہ کے مطابق ہر شخص کے لئے فی صدی منافع معین کرتے ہوئے قرار داد طے کی جائے ، یعنی معلوم ہونا چاہئے کہ حاصل شدہ منافع میں سے کتنا فی صد منافع اصل پونجی اور سرمایہ کے مالک کا ہوتا ہے اور کتنے فیصد کاکرنے والے شخص کا ہوگا۔(ضمنااگر نقصان ہوجائے تو اسے بھی قبول کرے )( ب) ضروری ہے کہ سرمایہ اور رقم کا مالک کام کرنے والے شخص کو وکالت دے کہ منافع حاصل ہونے کے بعداس منافع کو معین رقم میں صلح کرے۔(ج) جب کوئی فائدہ حاصل نہ ہو تو جو رقم ماہانہ ادا کی جارہی ہے وہ رقم علی الحساب ہونا چاہئے

مضاربہ ( شراکت) کے منافع کے بارے میں مصالحت کرنا

عقد مضاربہ اور اسی طرح کے دیگر عقد و معاہدہ میں کام کرنے والے یا سرمایہ دار کے لئے جو فیصدی منافع معین کیا گیا ہے کیا اس منافع کو رقم کی معین مقدار میں صلح کی جاسکتی ہے ؟

اگر حاصل شدہ منافع اور اس کی مقدار مبہم( نامعلوم ) ہے تو اس صورت میں صلح کرنے میںکوئی اشکال نہیں ہے لیکن منافع کے ظاہر ہونے سے پہلے صلح کرنا جائز نہیں ہے۔

مضاربہ میں یقینی منافع معیّن کرنا

کچھ عرصہ پہلے اس کمپنی نے سامان بنانے والے ایک تجارتی ادارے کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، جس کی بنیاد پر کمپنی کچھ قرض (لون) مذکورہ ادارے کودے گی اور ادارہ بھی اطمینان کے ساتھ اپنی فیکٹری سے حاصل ہونے والے چالیس فیصد فائدہ میں تیس فیصد فائدہ کمپنی سے مخصوص کردے گا دوسری طرف کمپنی نے بھی اسی مقصد سے ایک خاص اکاوٴنٹ کھولا ہے اور ضروری رقم کو، رقم جمع کرنے والے ممبران کے ذریعہ جمع کرتی ہے اور وہ اس مخصوص اکاوٴنٹ میں سرمایہ جذب کرنے کے اقدامات کرتے ہیں، واضح ہے کہ سرمایہ جذب کرنے کے لئے بھی اس کمپنی نے سرمایہ لگانے والوں کے سامنے اس مسئلہ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ کمپنی اس جمع کی ہوئی رقم سے استفادہ کرنے سے ۳۰/ فیصد منافع کی ضامن ہے جس میں آٹھ فیصد کمپنی وصول کرے گی اور باقی بائیس فیصد منافع، سرمایہ جمع کرنے والے ممبران کو ادا کرے گی، اب یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ یہ موضوع یقینی طور پر معیّن کردیا جاتا ہے کیا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔؟

اگر اس ادارے کا منافع مذکورہ مقدار سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

مضاربہ میں اصل سرمایہ اور منافع ادا کرنے کی ضمانت لینا

ایک کمپنی کواپنا ضروری بجٹ پورا کرنے کے لئے، کچھ اشخاص حقوقی (سرمایہ دار) اور حقیقی (کام کرنے والے اور انجینیر وغیرہ) اشخاص یعنی دونوں قسم کے حضرات کی ضرورت ہوتی ہے، یہ لوگ کمپنی کے ساتھ کام کرنے کے لئے، منافع کی ادائیگی کے برابر ضمانت کی ضرورت ہوتی ہے، سرکاری کپمنیاں، اسی طرح یہ بھی چاہتی ہیں کہ ان کے اصل سرمایہ کی واپسی کی بھی ضمانت اور ذمہ داری لی جائے، مذکورہ ضمانتوں کے سلسلہ میں جنابعالی کا کیا نظریہ ہے ؟

تنہا ایک راستہ جو اس کام کے لئے پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مضاربہ (مشارکت) کو منافع کے حصّہ کی بنیاد پر قرار دیں، لیکن علیحدہ سے دوسرے عقد لازم (چند جلد کتابوں کی خرید وفروخت کے معاملہ) میں شرط کریں، اگر اس مضاربہ کے معاملہ میں بیس فیصد سے کم یا اس سے زیادہ فائدہ ہوا ہو تو اس کی کسر پوری جائے، اسی طرح سرمایہ کے نقصان کے بارے میں ۔

کمپنی کے ذمہ دار کے ذریعہ نقصان پورا کرنے کی شرط

اس کمپنی کے مضاربہ کے منشور پر مشتمل متن کا بند سترہ (۱۷)درج ذیل ہے:”معاہدہ کرنے یا اُسے فسخ کرنے کے بعد اگر شعبہ کی تشخیص کے مطابق حساب کرنے کے نتیجہ میں کوئی نقصان کمپنی کو ہوتا ہے، اس صورت میں کمپنی کا سرپرست اس معاہدے کے بند میں مذکور عقد صلح کے ضمن میں عہد کرتا ہے اور اپنے ذمہ لازمی قرار دیتا ہے کہ مذکورہ نقصان کے برابر مال اپنے ذاتی مال میں سے مفت کمپنی کی ملکیت میں دیدے گا اور تاخیر کی صورت میں، معاہدے کی انجام دہی کے لازم ہونے کے علاوہ تین ہزار ریال پر روزانہ ایک ریال کمپنی کے مالک کے ذمہ ہوگا اور ہونے والے نقصان کے بارے میں فقط شعبہ کی اظہار نظر معتبر ہوگی، نیز اس سلسلہ میں کمپنی کا مالک مذکورہ عقد صلح کے ضمن میں ہر طرح کا اعتراض کرنے کا حق خود سے سلب اور ساقط کرتا ہے ۔عقد مضاربہ کے شرعی شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے، کیا یہ بند صحیح اور اشکال سے خالی ہے؟

عقد (معاہدے) کے ذیل میں اس طرح کے شرائط میں جو ضروری تو ہیں لیکن عقد (معاہدے) سے الگ ہونے ہیں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

پگڑی پر دکان وغیرہ لینے والوں کے اختیارات

ایک شخص نے سن ۳۶۰اہجری شمسی میں ، ایک دکان ، معلوم و معین قیمت پر مالک اور خریدار کے درمیان ، طے شدہ قرار داد کے مطابق ،پگڑی پر خرید ی ہے اور اس وقت کی طے شدہ قیمت ادا کردی ہے ، بیعنامہ کے ذیل میں یہ تحریر کیا ہے (( معاملہ پگڑی کی صورت میں ہے اور اس کو کسی دوسرے شخص کو دینے کاحق ہے ، لیکن دوسرے کو بیچتے وقت ، پگڑی کے قانون کے مطابق ، فائدہ کی رقم کے بارے میں اصل مالکوں کی رضایت کو ضرور حاصل کرے ، ( یعنی اصل قیمت سے زیادہ پر فروخت کر رہا ہے تو اس اضافی قیمت کو جو خریدار کا منافع ہے اس کے بارے میں ، اصل مالک کی رضایت حاصل کرے ) اور کرایہ کے طور پر ، تحریر لکھنے کے وقت سے دو سال تک ، سو تومان مہینہ مقرر ہوا ،مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرمائیں:الف ) کیا مالکین یا مالک ، شریعت کی رو سے ، جس کو دکان پگڑی پر دی ہے اس کی موافقت کے بغیر ، کرایہ کی رقم ہر سا ل بڑھا سکتے ہیں ؟ب) کرایہ کی رقم کی صور ت میں ، پھر پگڑی اور کرایہ پر دینے میں کیا فرق ہوا ؟

الف) ان صورتوں میں کہ جب ( دکان ) پگڑی پر دی گئی ہے اور کرایہ کی مدت بھی معین کر دی گئی ہے ، اس مدت کے گذرنے کے بعد ، مالک کرایہ کی مقدار میں تجدید نظر کرسکتا ہے ، لیکن بازار کے معمول سے زیادہ ، کرایہ دار سے کرایہ نہیں لے سکتا ۔ ب )پگڑی پر دینے کا فائدہ یہ ہے کہ بازار میں ، اس کا کرایہ کم ہوجاتا ہے اور دوبارہ کرایہ پر دینے کے لئے ہمیشہ ( کرایہ دار ) کا حق ددوسروں سے پہلے ہوتا ہے

دسته‌ها: پگڑی

امام زادہ (وقف) کی زمین پر دکانیں بنوانا اور ان کا کرایہ

دو مومن آدمی جو جہرم کے مقام پر واقع مسجد کے روزانہ کے کام انجام دیتے ہیں اور امام زادہ اسماعیل کے مرقد کے انتظامات دیکھتے ہیں ، امامزادہ اسماعیل کے مرقد کے متروکہ قبرستان کے ایک گوشہ وکنارے پر اپنے پیسہ سے دو دکانیں بنواتے ہیں ، اس کے بعد ان دونوں دکانوں کو ، سستے دام پر بیچنے والی کمپنی کے ذمہ داروں کو کرایہ پر دیدیتے ہیں ، انھوں نے کرایہ کی رقم کو مسجد اور امام زادہ کے مرقد کے اخراجات کے لئے منظور کیا ہے ، اب اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ مسجد اور امام زادہ کے مرقد کا متولی ، شرعی نہیں ہے اور ان کا وقف نامہ بھی موجود نہیں ہے ، مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات عنایت فرمائیں :الف ) کیا دکانیں بنوانا اور خصوصاً ان کو کرایہ پر دینے کے لئے ، مجتہد جامع الشرائط سے اجازت لینا ضروری ہے ؟

جی ہاں اجازت کی ضرورت ہے ، اور چنانچہ مذکورہ زمین ، متروکہ رہی ہو ، تو ہم اس میںعمارت بنانے کی اجازت دیتے ہیں ، اور انھیں کرایہ پر دینا اس صورت میں جائز ہے جب مذکورہ عمارت ( دکانیں ) مسجد اور امام زادہ کے کاموں کیلئے ضروری نہ ہوں ، اور کرایہ کی رقم امام زادہ اور مسجد میں خرچ کی جائے۔

تحقیقی کاموں میں محقق اور نگراں کا اختلاف

جب کوئی شخص کسی آدمی کے ساتھ درج ذیل شرح کے مطابق زبانی معاہدے کرے:”آپ یہ تحقیق کا کام انجام دیں، میں آپ کو فی گھنٹہ ڈیڑھ سو (۱۵۰) تومان دوںگا اور تحقیق سے مراد، مطالب کی دوبارہ کتابت، مطالب کو مناسب جگہ پر رکھنا، جدید، طریقے سے ترتیب دینا، یا اس کی تکمیل اور اصلاح کرنا ہو“۔طرفین قبول کرتے ہیں اور ابہامات کو دور کرنے کی غرض سے پے درپے نشست رکھتے ہیں، چند مہینہ کام کرنے کے بعد محقق ایک ہزار گھنٹوں سے زیادہ کے کام کی فہرست پیش کرتا ہے، جبکہ کام دینے والا شخص دعویدار ہے کہ جیسے کہاگیا تھا اس نے ویسے کام انجام نہیں دیا ہے اور طے شدہ شرائط کے مطابق کام مکمل نہیں ہوا ہے، برائے مہربانی آپ فرمائیں:۱۔ تحقیق کا کام دینے والا شخص کس قدر مقروض ہے، یعنی اسے کس قدر رقم ادا کرنا ہوگی؟۲۔ کام کے معنوی حقوق، معاہدے میں بیان نہیں ہوئے ہیں، کیا محقق کا نام تعاون کرنے والے کی حیثیت سے مصنف کے ساتھ لکھا جائے؟

جواب: اگر عقد معاملہ میں صراحت کے ساتھ بیان کئے گئے شرائط یا جو معاملہ کی بنیادی بات تھی، اس کے برخلاف عمل کیا گیا ہے تو اس صورت میں اُسے اجرة المثل (اس جیسے کام کی جو اجرت بنتی ہے) ادا کرنا ہوگی البتہ اِس شرط پر کہ اجرة المثل، طے شدہ اجرت سے زیادہ نہ ہو، لیکن اگر ٹائم کی مقدار میں اختلاف ہے تو کام کرنے والا شخص، شرعی دلیل سے ٹائم (گھنٹوں) کی مقدار کو ثابت کرے، مگر یہ کہ ٹائم کی مقدار کا معیّن کرنا خود اسی کے ذمہ قرار دیا گیا ہو ۔جواب: اگر (کتاب پر) محقق لکھنے کا معاہدہ نہیں ہوا ہو اور عام رواج کے مطابق بھی مصنف کو اسی کام پر مجبور نہ کیا جاتا ہو (کہ ایسی صورت اختیار کرلے کہ معاہدے کی بنیادی شرط وہی ہے) تب (کتاب پر)محقق کا نام لکھنا لازم نہیں ہے ۔

مالک کی مالکیت پر کرایہ دار کا دعویٰ

سولہ سال پہلے ایک شخص کو ایک دکان کرایہ پر دی گئی تھی اور ہرسال کرایہ کی مدت تمام ہونے سے پہلے دوبارہ اسی کو دے دی جاتی رہی، تین سال پہلے دکان کی مالکہ کا انتقال ہوگیا جبکہ اس دکان کے موجودہ مالک تین اشخاص ہیں، اس میں ایک تہائی مرحومہ کا حق ہوتا ہے، مرحومہ کے انتقال کے بعد اس کے وصی اور وارثوں نے دکان کے کرایہ کی دوباہر تجدید کردی ہے لیکن اب فی الحال وارثوں نے دکان کے کرائے کی درخواست کی، کرایہ دار کہتا ہے: ”میںدکان کو خالی کردوں گا لیکن ممکن ہے اس میں میرے بچوں کا بھی حق ہو، کہ اگر وہ حق مالکوں کو بخشدوں تو میں ذمہ دار رہوں“ برائے مہربانی درج ذیل دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) کیا اس کا یہ دعویٰ صحیح ہے؟ب) اگر اس کرایہ دار کا حق ہو اور وہ اپنا حق بخشدے تو کیا اس صورت میں اس کے بچّے دعویٰ کرسکتے ہیں؟

جواب: اگر کرایہ دار نے پگڑی نہیں دی ہے تو اسے کوئی حق نہیں ہے اور کرایہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اُسے چاہیے کہ دکان کو خالی کردے، لیکن بہتر یہ ہے کہ عام رواج کے مطابق جو دکاندار اور اس پیشہ کا حق شمار ہوتا ہے اس کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ مصالحت کریں ۔جواب: اگر اس کا حق ہو اور وہ بخشدے تب اس کے بچّے کوئی دعویٰ نہیں کرسکتے ۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی