سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

تحقیق کے بعد اسلام کے بجائے کسی دوسرے دین کا انتخاب

آپ کی توضیح المسائل کے شروع میں آیا ہے” اصول دین میں مسلمانوں کا عقیدہ دلیل و برہان کے ذریعہ ہونا چاہیئے“ اگر کوئی مسلمان تحقیق کرنے کے بعد اسلام کے بجائے کسی دوسرے دین کو اختیار کرلیتا ہے تووہ مسلمان کیا اس دین کی پیروی کرسکتا ہے ؟ اس صورت میں اس مسلمان پر کیا مرتد کا حکم جاری نہیںہوگا ؟ اوراگر جاری ہوگا تو کیوں؟ آیایہ مرتد کا حکم اصول دین میںتحقیق کرنے اور اس میں کسی کی تقلید نہ کرنے سے نا سازگار نہیں ہے؟ ۔نیزجس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اگر اپنے ماں باپ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا تووہ شخص قتل کردیاجائے گا ایسے میں یہ شخص اصول دین میں آزادانہ طور پر تحقیق کیسے کرسکتا ہے ؟

جواب : دین کی تحقیق اور کسی مذہب کے عقیدہ کا اظہار یہ دو الگ چیزیں ہیں،اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ سب انسانوںپر ضروری ہے کہ اصول دین کی تحقیق اپنی توانائی بھر کرے اور اگر کسی انسان نے حقیقت میں اپنی کامل تحقیقات اور اہل علم سے پوچھ تاچھ کے بعد اسلام کے بجائے کسی دوسرے دین کو اختیار کرلیا ہے تو ایسا شخص معذور ہے کیونکہ اس نے شرعی و عقلی فریضہ کو پورا کردیا ہے اگرچہ اس نے خطا کی ہے ، لیکن جو شخص پہلے مسلمان تھا کسی وجہ سے دوسرے مذہب کو اختیار اور اس کا اظہار بھی کرنے لگا تو ایسا شخص مرتد کے حکم میں ہوگا حقیقت میں یہ مرتد کا حکم اسلام کا سیاسی حکم ہے تاکہ دشمن مسلمانوں کو فریب اور اسلامی ماحول میں نفوذ نہ کرنے پائے ۔

دسته‌ها: مرتد

جنین کی طہارت

آج کل بہت سارا سنگار کا سامان جو مسلمان خواتین استعمال کرتی ہیں جو جنین کے جفت سے تیار کیا جاتا ہے اس کے استعمال کا کیا حکم ہے اور یہ بھی فرمائیں کہ جفت نجس ہے یا متنجس ؟

جواب : جفت کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے (جیسا کہ ہم نے عروة الوثقی کے حاشیہ میں بھی لکھا ہے ) اس بنا پر اگر خون سے آلودہ نہ ہو یا شک ہو ( کہ خون سے آلودہ ہے یا نہیں ) تو پاک ہے ۔

کافر کی قسمیں

کافر کی رائج تقسیم، کافر حربی اور کافر ذمّی، جس میں کافر غیر ذمّی کو حربی جانتے ہیں، کے مطابق، کیا اس پر ذمّی کے تمام احکام جاری کئے جاسکتے ہیں تاکہ جو کفار اسلامی جمہوریہ ایران میں رہتے ہیں وہ کافر ذمّی اور باقی کفّار خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہوں، کافر حربی سمجھے جائیں، اور کافر حربی سے مخصوص تمام اقدامات، ان کے بارے میں کیا جانا جائز ہوجائے یا نہیں بلکہ کافر حربی مخصوص ہے اس حالت سے جب وہ جنگ کی حالت میں ہوں اور حالت جنگ کے علاوہ، کفار کی تیسری قسم ہوتی ہے جو نہ ذمّی ہوتے ہیں اور نہ حربی، نیز کیا ان کفار کی جان، مال اور عزّت وآبرو محترم ہے جو حالت جنگ میں نہیں ہیں؟

کافر کی تیسری اور چوتھی قسم بھی ہے، اس کی تیسری قسم ”کافر معاہد“ ہے، دور حاضر کے وہ بہت سے ممالک ، جن سے ہمارے سیاسی تعلقات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، اس (تیسری قسم) کا مصداق شمار ہوتے ہیں اور جب تک کسی طرح سے بھی وہ ممالک، مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں داخل نہ ہوں، اُن کی تمام چیزیں، جان اور ان کا مال، محترم ہے، اس لئے کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کے قوانین کے اعتبا رسے ان کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات ہوگئے ہیں، اس وجہ سے وہ سب، تیسری قسم یعنی ”کافر معاہد“ کے دائرے میں شمار ہوں گے، نیز توجہ رہے کہ کافر معاہد کا وقت محدود نہیں ہوتا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، ہماری نظر میں ایسا نہیں ہے اور کافر معاہد ، اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں کافروں کو شامل ہے (یعنی کافر کی تیسری قسم (کافر معاہد) میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں) اور قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ اہل کتاب کو اس وقت کافر ذمّی کا عنوان دیا جائے گا جب وہ اسلامی ممالک کے اندر زندگی بسر کرتے ہوں، لہٰذا جو اہل کتاب کفار اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہیں وہ فقط ”کافر معاہد“ ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں کافر ذمّی کے معاہدہ کا کوئی مطلب نہیں ہے (مگر یہ کہ کوئی کافر نشین ملک خود کو اسلامی ممالک کی پناہ میں دیدے) اس لئے کہ کافر ذمّی کے احکام میں بہت سے ایسے قرینہ موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ احکام، اسلامی ممالک کے اندر رہنے والے، اقلّیتی مذہب والوں سے متعلق ہیں ۔چوتھی قسم، وہ کفار ہیں جو نہ کفار ذمّی کا حصّہ ہیں نہ کافر معاہد اور نہ کفار حربی میں شامل ہیں، حقیقت میں وہ مسلمانوں کے لحاظ سے بالکل بے طرف اور غیرجانبدار ہیں، ان کو غیر حانبدار کا نام دیا جاسکتا ہے، قرآن مجید کی دو آیتوں میں ان کی وضعیت اور صورتحال کی طرف اشارہ ہوا ہے ، سورہٴ ممتحنہ کی آیت ۸ میں ارشاد ہوتا ہے: اور سورہٴ نساء کی آیت ۹۰ میں کفار کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: لہٰذا اس بناپر ”القای سلم“ سے مراد، مسالمت آمیز راستہ ہے، معاہدہ صلح نہیں، اس لئے کہ القای سلم کی عبارت، ان ہی معنی سے مناسب ہے اور بعد کی آیت بھی اسی آیت پر شاہد ہے، بہرحال غیرجانبدار کافر کی جان، مال، عزّت آبرو بھی محترم اور محفوظ ہے، اور کفار کی چار قسموں کے متعلق اس سے زیادہ وضاحت کرنے کے لئے، نسبتاً تفصیلی بحث کی ضرورت ہے (جس کا یہاں پر موقع نہیں ہے

دسته‌ها: کافر
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت