سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

روایت میں ((عول)) کے معنیٰ

مہربانی فرما کر درج ذیل روایت: ”قال الشعبی:” ماراٴیت افرض من علیّ ولا احسب منہ و قدسئل عنہ علیہ السلام وہو علی المنبر یخطب، عن رجل مات وترک إمراتہ وابوین وابنتین، کم نصیب اٴمرئة؟ فقال(علیہ السلام) صار ثمنہا تسعاً، فلقبت بالمسئلة المنبریہ شرح ذلٰک: لابوین السدسان وللبنتین الثلثان، وللمراٴة الثمن عالت الفریضة فکان لہا ۳ من ۲۴ ثمنہا فلما صارت الی۲۷ صار ثمنہا تسعاً فان ثلاثة مِن۲۷ تسعہا ویبقی۲۴ لابنتین ۱۶ و۸ لابوین سَوَاء“ میں جملہٴ ”عالت الفریضہ“ کی وضاحت فرمائیں؟

جواب: مراد یہ ہے کہ شوہر کی میراث میں سے اس زوجہ کا حصہ جس کا شوہر صاحب اولاد ہو، حکم اوّلی کی بناپر ترکہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے لیکن جب والدین اور بیٹیوں کے حصے کے ساتھ جوڑا جائے اور سب کے حصوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو کل ۲۷ حصہ ہوتے ہیں (جب مال کے ۲۴ حصہ کئے جائیں تو ان میں سے دوتہائی ۱۶ حصہ ہوں گے اور چھ میں سے دو، ۸ حصّہ ہوں گے اور آٹھواں حصہ ایک تہائی حصہ قرار پائے گا اور ۱۶ و۸ و۳ سب کو ملاکر ۲۷ ہوجائیں گے) جب بھی ۲۷ حصّوں میں سے تین حصوں کو علیحدہ کیا جائے گاتو وہ کل مال کے نویں حصہ کے برار ہوگا، ا س حدیث کی تفسیر ووضاحت یہی تھی، لیکن تمام احادیث کو پیش نظر رکھ کر فقہی نظریات کے اعتبار سے، اس مسئلہ میں گفتگو کی گنجائش باقی ہے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

شوہر کے تحفہ زوجہ کو

کیا وہ مختلف لباس، زیوارت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، جو اپنی زندگی میں شوہر نے اپنی زوجہ کے لئے خریدی ہیں، زوجہ کی ملکیت ہیں یا شوہر کا مال ہے جو وارثوں کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے؟

جواب: جب کسی مقام پر، رواج یہ ہو کہ لباس اور زیوارت، زوجہ کو ہبہ کرتے ہیں توزوجہ کی ملکیت ہیں اور اگر کسی جگہ پر یہ دستور ہو کہ یہ چیزیں امانت کے طور پر زوجہ کے پاس ہوتی ہیں اور وہ فقط شوہر کی زندگی میں انھیں استعمال کرسکتی ہے تب تما م وارثوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، لیکن عام طور پر زوجہ کی ملکیت میں دیتے ہیں ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

قتل عمد میں وارثین کا تعاون

کیا قتل عمد میں تعاون کرنا موانع ارث میں سے شمار ہوگا؟

جواب: اس صورت میں جبکہ تعاون اس شکل میں ہو ا ہو کہ قتل کی نسبت دونوں (یعنی قاتل اور معاون) کی طرف دی جاسکے، دونوں ارث سے محروم ہوجائیں گے؛ لیکن اگر اس طرح نسبت نہ دے سکیں، مثلاً اس نے اسلحہ کو قاتل کے اختیار میں دیا، یا مقتول کی جگہ کا پتہ بتایا، اس طرذح کا تعاون مانع ارث نہیں ہے۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

میراث تقسیم ہونے کے بعد لاپتہ (جنگ میں) شخص کا مل جانا

جب کسی لاپتہ شخص کے بارے میں، اس کے انتقال ہونے کا حکم جاری اور اس کی میراث تقسیم ہوجائے اس کے بعد، وہ شخص مِل جائے، اس صورت میں اس کے اصل مال اور اس کے منافعہ کے سلسلہ میں وارثوں کا کیا وظیفہ ہے؟ نیز جو مال استعمال کی مدت میں تلف ہوگیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہوجائے، اس کے ترکہ کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا، البتہ طلاق کا حکم اس سے جدا ہے اور اگر میراث کے تقسیم کرنے کے بعد وہ لاپتہ شخص واپس آجائے تو اس کا اصل مال اور اس کا نفع سب اسی کو واپس کیا جائے گا اور جن لوگوں کے درمیان، اس کا مال تقسیم ہوا تھا، ان میں سے جس نے اس کا مال تلف کیا ہوگا وہی ضامن ہوگا ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

۔مشروط صورت میں وارثوں کو مال فروخت کرنا

میں نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ مال ودولت کو، ایک ہزار تومان کے عوض، اپنے بیٹے کو فروخت اور اس کے حوالہ کردیا تھا، لیکن اس شرط پر کہ جب تک میں زندہ ہوں میرے اختیار میں رہے، افسوس کہ میرے بیٹے کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا، کیا وہ مال ودولت واپس مجھے مل جائے گا یا میرے بیٹے کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا ؟

جواب: اگر آپ کا مقصد یہ تھا کہ ملکیت آپ کے بیٹے کی جانب منتقل ہوجائے (یعنی وہ مالک ہوجائے) اور اس کا منافعہ، تا حیات آپ کے اختیار میں رہے، تو اب اس کے مرنے کے بعد، وہ مال اس کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا اور آپ تاحیات اس کے منافعہ کے مالک رہیں گے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل

اپنا سب کچھ مال و دولت زوجہ کو فروخت کردینا

ایک مجوسی گھرانہ کا لڑکا ۱۳۶۲ئھ شمسی میں، فدائی چھاپہ مار گروہ کے ایک مہرہ کے عنوان سے، گرفتار اور قید ہوجاتا ہے، مذکورہ شخص کی سزا کا حکم بھی، جیل ہی میں، صادر ہوجاتا ہے، لیکن وہ قید میں رہتے ہوئے توبہ کرلیتا ہے اور دین اسلام کی جانب مائل ہوجاتاہے نیز قید کی سزا ختم ہونے کے بعد، جب جیل سے رہا ہواتو اس کے بعد ۱۳۶۶ء شمسی میں اس کا باپ مرجاتا ہے اور ۱۳۶۸ء شمسی میں، وہ شخص، میراث میں سے اپنا حصہ وصول کرلیتا ہے اور غیر منقولہ چیزوں کو قانونی اعتبار سے اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے ۔ اب فی الحال عدالت کے ایک وکیل کی رہنمائی سے، ملکی قانون کے بند، ۸۸۱ کی بناپر جس میں آیا ہے: ”کافر کو مسلمان کی میراث نہیں ملے گی اور اگر مرنے والے کافر کے وارثوں میں سے کوئی وارث مسلمان ہوجائے تو کافر وارثوں کو میراث نہیں ملے گی اگر چہ وہ لوگ میراث کے طبقہ اور درجہ کے لحاظ سے مقدم ہی کیو ں نہ ہوں“ وہ شخص اپنی (کافر)ماں، بہن اور بھائی کے خلاف، مقدمہ دائر کردیتا ہے، آپ فرمائیں کہ کیا مسلمان وارث کے علاوہ کافر وارثوں بھی کو میراث ملے گی ؟

مذکورہ مسئلہ کے فرض میں، فقط مسلمان وارث کو میراث ملے گی، لیکن اس طرح کے موقعہ پر اگر اخلاقی مسائل کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے ۔

دسته‌ها: مختلف مسایل
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی