کرایہ دار کے ذریعہ موقوفہ کے اطراف کو آباد کرنا
ایک شخص نے وقف کی ہوئی زمین کے ایک حصّہ کو، اس کے متولی سے کرایہ پر حاصل کرلیا، کرایہ پر لینے کے بعد، اس شخص نے موقوفہ زمین کے قریب پڑی ہوئی کچھ بنجر زمین کو بھی آباد کرلیا، اس صورت میں کیا متولی، مذکورہ آباد کی ہوئی زمین کو بھی وقف میں شمار کرسکتا ہے، یا کرایہ دار اور اجرت پر لینے والا شخص اس زمین کا مالک ہوگا؟
جواب: چنانچہ وہ زمین، وقف کی شرعی حدود کے اندر تھی تو اجرت پر لینے والے شخص کو، اُسے آباد کرنے کا کوئی حق نہیں تھا اور وہ مالک بھی نہیں ہوگا اور جب تک کرایہ کی مدت ختم نہیں ہوجاتی اس وقت تک کرایہ دار کو آباد کی ہوئی زمین سے استفادہ کرنے کا حق ہے، متولی اس سے واپس لے نہیں سکتا البتہ اس شخص کو کرایہ ادا کرنا چاہیے لیکن کرایہ کی مدت کے ختم ہونے کے بعد، کرایہ دار کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔
امام جماعت کے معین کرنے میں واقف کی نظر
واقف چاہتا ہے کہ ہمارے پیش نماز اعلم اور مقامی ہونے چاہیے، لیکن حال حاضر میں جو امام جمعہ والجماعت ہیں وہ اس شہر کے رہنے والے نہیں ہیں، ایسے امام کی اقتداء میں نماز جماعت کا کیا حکم ہے؟
امام جماعت کو معیّن کرنے میں واقف کی رائے شرط نہیں ہے ۔
وقف زمین اور پانی میں تصرف کرنا
کیا موقوفہ زمین یا پانی جو شخص کے اختیار میں ہے، تصرف کرنا کوئی خاص اور معیّن قسم کا تصرف کرنا ہے؟
جواب: اگر کسی موقوفہ زمین یا پانی کو اجارہ (کرایہ) پر لے لیا ہے اور کوئی خاص شرط بھی نہیں لگائی ہے تو جس طرح کا استفادہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔
وقف اورتملیک مشاع (مشترکہ ملکیت ) کا حکم
اگر بعض چیزیں جیسے قالین وغیرہ کو چند مختلف لوگوں کی مشترک رقم سے خریدا جائے اور رقم دینے والے بعض لوگوں کی نیت، وقف اور بعض لوگوں کی نیت، تملیک ہو اس طرح کی صورت میں، مذکورہ طریقہ سے خریدی ہوئی چیزیں وقف میں شمار ہوں گی یا نہیں؟
جواب: ان میں سے ہر ایک کا اپنا حکم ہے اور اگر جدا ہونے کے قابل نہیں ہیں، تب طبیعی طور پر ان چیزوں پر وقف کے احکام جاری ہوں گے۔
عین موقوفہ کو واقف کی ضرورت کے وقت عین موقوفہ کو پلٹانے کے شرائط۔
ایک گھر کے وقف کاصیغہ اس پر مشروط ہوا تھا کہ واقف ضرورت کے وقت عین وقف کو اپنی طرف استرداد (پلٹانے) کا حق رکھتا ہے، واقف نے وقف سے پہلے اس گھر کو تیس (۳۰) سال کی مدت کے لئے کرایہ (اجارہ) پر دے دیا اور اپنے لئے خیار فسخ کا حق محفوظ رکھا، اب تیس سال گذرجانے پر اس گھر کو موقوف علیہ کے سپرد کرنا چاہیے لیکن حال حاضر میں ابھی اس کے کرایہ کی مدت کے ۱۲ سال باقی ہیں، دوسری طرف سے یہ کہ یہ گھر حضرت معصومہ (س) کے حرم کو توسعہ دینے کے پلان میں آگیا ہے اور عنقریب ٹوٹنے والا ہے تو آپ فرمائیے:۱۔ کیا اس پیسہ سے جو شہرداری (میونسپلٹی) اس گھر کے انہدام کی بابت ادا کرے گی دوسرا مکان خریدا جائے اور تیس سال پورے ہوجانے کے بعد موقوف علیہ کے سپرد کردیا جائے؟۲۔ کیا باقی ماندہ مدتِ اجارہ وارث کی طرف منتقل ہوجائے گی؟
جواب: مذکورہ وقف اشکال رکھتا ہے ، وہ مال میّت کے دوسرے اموال کی طرح وارثین میں تقسیم ہوگا اور نیز باقی ماندہ مال الاجارہ میت کے وارثوں سے متعلق ہے۔
وقف کی آمدنی کے مصرف کی تبدیلی
وقف کی آمدنی کن جگہوں پر خرچ ہونی چاہیے نیز اس (وقف) کے مصرف کو کس صورت میں بدلنا جائز ہے؟
جواب: مسلّم قانون اور مشہور روایت "الوقوف علی حسب ما یوقفہا اہلہا" کے مطابق، موقوفہ کی آمدنی کو اس چیز میں صَرف کرنا چاہیے، جس کے لئے وقف نامہ میں صراحت سے بیان ہوا ہے، مگر یہ کہ وقف نامہ کی ایک یا چند باتیں قابل عمل نہ ہوں، جیسے ہمارے زمانے میں تانبے کے برتن، جنہیں دوسرے برتنوں سے بدل لیا جاتا ہے۔
ایسا وقف جس کا متولّی مرگیا ہو
بحرین کے ایک عالم دین نے، پچاس سال پہلے عزاداری کے لئے ایک جگہ وقف کی تھی تاکہ اس کی آمدنی سے عزاداری کی جائے، اپنی زندگی میں وہ خود متولی تھے اور ان کے انتقال کے بعد، بحرین کے ادارہ اوقاف سے کچھ لوگوں کو متولی کے عنوان سے معیّن کیا گیا ہے اُن متولّیوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں مجتہدین کی جانب سے بھی اجازت ہے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ وہ لوگ قابل اعتماد نہیں ہیں، اس تمہید کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمارے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) کیا یہ وقف اپنے وقف ہونے کی حالت پر باقی ہے اور ان کو حاکم شرع کے زیر نظر رہنا چاہیے یا مجہول المالک (جس کے مالک کا پتہ نہ ہو) کے حکم میں تبدیل ہوجائے گا چونکہ ان کے موجودہ متولی غیر شرعی ہیں؟
جواب: الف) اس طرح کے مسائل سے وقف ختم نہیں ہوتا بلکہ حاکم شرع سے اجازت لینا چاہیے۔ب) اگر وقف کی حالت پر باقی رہیں تو اس صورت میں ان کی آمدنی کو، وقف شدہ چیزوںکے علاوہ دوسری جگہوں پر جیسے امام باڑے کی دوبارہ تعمیر یا امام باڑے سے متعلق کوئی عمارت بنانے کے لئے استعمال کرنا تاکہ امام باڑے کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے، کیاایسا کرنا جائز ہے؟جواب: ب)موقوفہ کی آمدنی کو وقف کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، جیسا کہ یہی دستور روایات میں وارد ہوا ہے اور وقف کے قریب کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ اس مورد میں مصرف کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں جو مصرف وقف کے مصرف ہیں، ان میں استعمال کرنا چاہیے۔
۔وقف کے بکے ہوئے مال کا تصرف
ان موقعوں پر کہ جب وقف شدہ یا مسجد کی ملیکت میں دی گئی چیزوں کو ہمارے لئے فروخت کرنا جائز ہو، کیا اس رقم سے مسجد کی ضرورت کی دوسری چیزوں کو خرید سکتے ہیں، یا فقط انہی کے جیسی چیزوں کو خریدا جاسکتا ہے؟
جواب: ضرورت کی صورت میں ان ہی کے جیسی چیزوں کا خریدنا مقدّم ہے۔
سعودی عرب کے سیاسی عہدے داروں سے موقوفہ قرآن کوحاصل کرنا ۔
وہ مہر شدہ قرآن جس پر وقف کی مہر لگی ہو، سعودی عرب کے سیاسی عہدہ داروں سے لینا کیسا ہے؟
جواب: جب بھی وہ آگاہی کے ساتھ لوگوں کو ہدیہ کریں کوئی مانع نہیں رکھتا۔
بچّوں کے لئے وقف کرنا
ایک شخص نے اپنے مال کی کچھ مقدار کو وقف خاص کی صورت میں وقف کردیا ہے یعنی اپنے بچوں کے لئے وقف کردیا ہے، کیا یہ وقف صحیح ہے؟
جواب: اگر وقف کے دوسرے شرائط موجود ہیں تو اس صورت میں وقف صحیح ہے۔