دھوپ سے جوش کھایا ہوا انگور کا شیرہ
ہمارے گاوٴں میں انگور کا عرق اس طرح نکالتے ہیں ۔انگور کو توڑنے کے بعد ایک مخصوص حوض میں دھوتے ہیں پھر انگور کو کچل کر اس کا عرق نکال لیتے ہیں اس کے بعداس عرق میںایک خاص مٹی کو ملاکر رکھ دیتے ہیں جب مٹی بیٹھ جاتی ہے تو اس وقت عرق کو مخصوص برتن میں نکال کر آگ پر کھولاتے ہیںتاکہ ایک تہائی یا چوتھائی بھاپ بن کر اڑجائے پھر عرق کو کسی چھوٹے برتن یا لوٹے میں ڈال کر دھوپ میں رکھ دیتے ہیں، تاکہ اس میں سے دو تہائی یا زیادہ بھاپ بن کر اڑ جائے ۔اور وہ سخت ہوجائے ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ فرمائیں -:(۱) کیا اس طرح کے عرق کا پینا حلال ہے ؟ اور اگر حرام ہے تو کیا نجس بھی ہے ؟ جو لوگ اس طرح سے عرق بنا کرایک طویل مدت سے کھارہے ہیں یا بیچ رہے ہیں ان کے سلسلہ میں کیا حکم ہے؟(۲)اگر انگور کے عرق کو آگ پراتنا کھولائیں کہ دو تہائی کم ہوجائے پھر اس کو سخت کرنے کیلئے دھوپ میںرکھ دیں تو اس عرق کا کیا حکم ہے ؟ (۳) آیا ” انگور کا عرق “ استحالہ (یعنی تبدیل) ہوکر ” شیرہ انگور “ ہوجائے تو حلال ہے ؟
اس طرح کا عرق نجس نہیں ہے لیکن کھانے اور اسکے بیچنے میں اشکال ہے ۔اور اس کو آگ کے ذریعہ دو تہائی کرنا ضروری ہے ۔ یہ چیز استحالہ کے حکم میں نہیں ہے ۔
کھانے کے علاوہ دیگر استعمال کے لئے حرام گوشت دریائی جانوروں کا حکم
جیسا کہ ہمیں اس بات کی اطلاع ہے کہ مجتہدین کرام حفظہم الله کے نظریہ کے مطابق دریائی جانوروں میں سے جن کے کرن ہوتی ہیں ان کا گوشت حلال اور جن کے کرن نہیں ہوتی ان کا گوشت حرام ہے، کیا جن جانوروں کے کرن نہیں ہوتی ان سے ہر طرح کا استفادہ کرنا حرام ہے یا کھانے کے علاوہ دیگر استفادہ کرنا یا غیر مسلم لوگوں کو استعمال کے لئے دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے؟ اگرچہ انھیں فروخت کرنے ای دوسری چیز سے بدلنا یا نقد رقم کے عوض یا کسی چیز کے بدلے، اُن سے استفادہ کرنے کے حق کو دوسروں سے مخصوص کرنے کے عنوان سے ہی کیوں نہ ہو، اس مسئلہ میں جنابعالی کا کیا نظریہ ہے؟
اگر اس قسم کے دریائی جانوروں کو ایسے لوگوں کو فروخت کیا جائے جو انھیں حلال سمجھتے ہیں یا کھانے کے علاوہ کسی دوسرے استعمال کے لئے فروخت کریں تب کوئی اشکال نہیں ہے ۔
غیر ممالک سے آنے والا سوسےس ( گوشت اور دال وغیرہ کو پےس کربنایا جانے والا مخصوص کھانا)
غیر ممالک سے جو سوسیس (ایک مخصوص کھانا) بر آمد ہوتاہے ،اس کا کیا حکم ہے آیا حرام ہے یا حلال ؟
جواب :وہ کھانے کی اشیاء جن کے اندر غیر اسلامی ذبیحہ استعمال کیا گیاہے حرام ہیں۔
الکل مشروبات کو اپنے ےہاں رکھنا
آپ کی مبارک نظر میں ، الکلی مشروبات کا رکھنا (اس کی نگہداشت کرنا)کیساہے؟
جواب: حرام ہے اور تعزیر کا باعث ہے ، مگر ان موقعوں پر جب کوئی مھم غرض ہو یا س کو سرکہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہوں۔
خرگوش کا گوشت
خرگوش کا گوشت کھانا کیسا ہے؟
جواب: حرام ہے ۔
وہ پینے والی چیزیں جن میں الکحل ہوتا ہے
کھانے پینے کے ان اشیاء کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ جن میں فطری طور سے الکحل بہت کم مقدار میں موجود ہوتا ہے جیسے سرکہ، خالص جو کا پانی بغیر الکحل وغیرہ کے۔
جواب: جب بھی ان پرالکحلی مشروبات صادق نہ آئے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
دانت اکھڑوانے کے بعد خون سے آلودہ لعاب دہن کا نکلنا ۔
جو شخص دانت اکھڑواتا ہے تقریباً دس گھنٹے تک لعاب دہن جو اکثر وبیشتر خون آلودہ ہوتا ہے باہر نہیں نکال سکتاکیونکہ اس کے لئے مضر اور دائماً خونریزی کا سبب بن جاتا ہے اس لئے مریض اکھڑے دانت کی جگہ پٹی رکھتا ہے اور خون آلودہ لعاب دہن حلق سے اتار لیتا ہے ، ایسے شخص کی کیا تکلیف ہے ؟
جواب: جب تک مجبورنہ ہو خون آلودہ لعاب دہن کو حلق سے نہ اتارے، مجبوری اور حرجی صورت میں کوئی مانع نہیں ہے۔
نشے کی عادت چھڑانے والے شربت کا بنانا اور بیچنا۔
نشہ کی عادت کو چھڑانے والی چیزوں کا بنانا، بیچنااور استعمال کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟
جواب: اگر واقعاً نشے کی عادت کو چھڑانے کے لئے ہے تو کوئی اشکال نہیں رکھتا۔
الکحلی مشروبات کا کم مقدار میں استعمال کرنا
طبی نقطہ نظر سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ الکحلی مشروبات کم مقدار میں استعمال کرنا نہ صرف بدن کے لئے مضر ہے بلکہ دوسری مشروبات کی طرح مفید ہے، نیز الکحلی مشروبات خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا اشکال رکھتا ہے کہ اس کا استعمال مثبت اور مفید پہلو کے لئے دوسری نعمات خداوندی کی طرح شرائط ومعین مقدار کے ساتھ کیا جائے؟اگر کوئی شخص تزکیہٴ نفس کے ذریعہ اپنے نفس پر اس درجہ تسلط حاصل کرلے جو محدود مقدار میں، الکحلی مشروبات کے کم استعمال سے نہ تو اس کا عادی بنے اور نہ مستی کی حد تک پہنچے کیا اس صورت میں اس کے لئے کم اور محدود مقدار میں الکحلی مشروبات کا استعمال جائز ہے؟
جواب: اوّلاً کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے کہ الکحلی مشروبات کم اور محدود مقدار میں استعمال کرنا مضر نہیں ہے بلکہ کم مقدار کا ضرر کم ہوتا ہے، ثانیاً: جب بھی ایسی اجازت لوگوں کو دے دی جائے تو یہ کسی بھی صورت کنٹرول میں نہیں رہے گی اور بہت جلدی پورا معاشرہ اس سے آلودہ ہوجائے گا، اسی وجہ سے شریعت نے اس کو بطور کلی ممنوع قرار دیا ہے، ثالثاً: قانون، عمومی پہلو رکھتا ہے اور یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ مختلف افراد کو مختلف بہانوں کے ذریعہ حکم سے جدا کیا جائے ، سعی کریں کہ انشاء الله ایسے شیطانی وسوسوں کا آپ شکار نہ ہوں۔