مولانا حضرات کا عمامہ کے بغیر آنا جانا
مولانا حضرات کا بغیر اپنے مخصوص لباس (عباء قبا اور عمامه) کے کہیں آنے جانے کا کیا حکم ہے؟
اگر مولویت کی صنف کی توہین شمار نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر مولویت کی صنف کی توہین شمار نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ان امور مین والدین کی رضایت ضروری نہیں ہے، ان کی اطاعت ان موارد میں واجب ہے جہاں ان کی عدم اطاعت ان کے ازار و ازیت کا سبب ہو۔ ایسے مسائل جو انسان کی زندگی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسے نکاح و طلاق، ان میں بھی ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح سے علم دین کے حصول کے لیے، جو عصر حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے، والدین کی رضایت شرط نہیں ہے، اسی طرح سے علماء کے لباس پہننے کا بھی یہی حکم ہے مگر بہتر یہ ہے کہ تمام کاموں میں ان مرضی کو شامل کیا جائے۔
شہریہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جو حوزہ میں درس پڑھتے ہیں۔ البتہ اگر شہریہ دینے والے بعض خاص موارد میں اجازت دیتے ہیں تو ان موارد میں لینا جایز ہوگا۔
اگر دینی اور حوزوی علوم کے حصول کی راہ میں وہ مانع نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
شہریہ سے مربوط مسائل کے لیے مراجع کرام کے دفتروں میں رجوع کریں اور ان کے حکم کے مطابق اس پر عمل کیا جائے، شہریہ کے مصرف کے لیے دفتر سے اجازت کا ہونا ضروری ہے۔
موجودہ حالات میں دینی علوم کا حاصل کرنا مقدم ہے۔ البتہ ایک گروہ کا یونیورسٹی مین پڑھنا بھی ضروری ہے تا کہ اسلامی مقاشرہ کے تمام شعبہ جات اچھی طرح سے چل سکیں۔
امتحان میں نقل کرنا جایز نہیں ہے، اب چاہے وہ جگہ بیت المال سے چلتی ہو یا کسی اور مال سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ نقل کرنے کا نقصان خود نقل کرنے والے کو ہوتا ہے۔ اگر نمبر کا امتحان میں کوئی اثر نہ ہو تو اس مین نقل کرنا حرام نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ میں نے لکھا ہے تو چھوٹ کا مرتکم ہوا ہے جو کہ حرام ہے۔
سب سے پہلے انسان کے لیے دینی علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بعد ایسے علوم جو ایک اسلامی معاشرہ کے لیے ضروری ہیں، ان کا حاصل کرنا واجب کفایی اور اسلامی سماج کی سر بلندی اور رفع ضرورت کے لیے ضروری ہے۔
ان افراد کے لئے فلسفہ کا سیکھنا جنھوں نے اپنے اعتقاد کی بنیادوں کو مضبوط کرلیا ہو نہ یہ کہ مضر ہو بلکہ فکروں میں ترقی کا سبب بھی ہوتا ہے، لیکن اس کو متدین اُستاد سے حاصل کرے ۔
آپ کے سوال اور اس کی صورت کے مطابق علماء اور دیندار افراد کا الیکشن میں شرکت کرنا واجب ہے۔