جعلی خبروں کو نشر کرنا
ایک جعلی خبر کو کس حد نشر کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسی خبروں کا اسلامی جمہوریہ کے نظام میں کوئی مقام ہے؟ یہاں تک کہ نظام کی یا اشخاص وغیرہ کی مصلحت مدنظر ہو؟
اس طرح کے مسائل میں، نظام اور معاشرے کی مصلحت کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔
اس طرح کے مسائل میں، نظام اور معاشرے کی مصلحت کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔
ایسی خبر کے انتشارکی حد وہاں تک ہے جہاں تک معاشرے کے لئے ضرر کا سبب نہ ہو۔
اگر یہ کام مشروع اور مثبت ہدف کے لئے انجام دیا جائے تو کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
اگر واقعاً کوئی مسئلہ اہم اور مہم کی صورت اختیار کرلے اور جھوٹ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے مانند ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن چونکہ ممکن ہے کہ یہ حکم سوء استفادہ کا ذریعہ بن جائے اور خبرنگار کسی نہ کسی بہانے سے جھوٹی خبروں کو منتشر کریں، لہٰذا حتی الامکان اس کام سے پرہیز کیا جائے ۔
جب اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ ہو اور خبر کی ضرورت بھی ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے اور اس کو رشوت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
مضمون کو بدلنا، جھوٹ بھی اور تہمت بھی شمار ہوگا؛ لیکن تلخیص کرنا یا نقل بمعنی کرنے میں ممانعت نہیں ہے ۔
ان مسائل میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔
ایک موٴثق شخص خبر کو نقل کرے تو کافی ہے، لیکن احتیاط یہ ہے کہ مہم خبروں میں ایک شخص پر قناعت نہ کرے ۔
جب تک کوئی خبر حد تواتر کو نہ پہنچے اور اطمینان بخش قرائن کے ساتھ بھی نہ ہو تو اس کو محتمل خبر کی صورت میں ذکر کرے نہ قطع کی صورت میں ۔
جی ہاں، ان کے بھی کچھ شرائط ہیں؛ وثاقت، امانت، مہم مطلب کو سمجھنے کے لئے بطور کافی ذہانت، مطالب کو حفظ اورنگہداری کے لئے قوی حافظہ، ان میں سب سے مہم اپنی نظر نہ دینا اور حسنِ نیت اور اخبار کو شخصی سلیقہ سے آلودہ نہ کرنا، ان کی شرائط میں سے ہیں ۔
قران مجید کے فصاحت وبلاغت کے طریقوں کو حاصل کرنے کے لئے اور خبرنگاری میں ان سے استفادہ کرنے کے لئے ”پیام قرآن“ کی آٹھویں جلد کی قرآن مجید، فصاحت وبلاغت کی نظر سے ”معجزہ“ ہونے کی بحث میں صفحہ۸۷ کے بعد دیکھے سکتے ہیں، یا ہماری کتاب ”قرآن وآخرین وپیامبر“ میں مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
جو شرائط بیان کئے گئے ہیں اگر ان کے ساتھ ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔