خبروں کو اکھٹا کرنے میں خواتین کی خدمات حاصل کرنا
کیا خبروں اور رپورٹوںکے جمع کرنے میں خواتین سے استفادہ کرنا جائز ہے؟
اگر عفت کے اصول کی رعایت کی جائے تو خواتین سے استفادہ کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
اگر عفت کے اصول کی رعایت کی جائے تو خواتین سے استفادہ کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
کم فروشی کے خاص معنی ہیں کہ جو معاملات میں قابل تصور ہے اور اس کاایک عام مفہوم ہے، یہ کہ اگر کوئی شخص اپنے کام میں کمی کرے گا (یعنی چوری کرے گا) تو وہ کم فروشی کا مصداق ہے اور خبر میں کم فروشی یہ ہے کہ کوئی خبر نگار بطور ناقص یا لولی لنگڑی خبر نقل کرے یا بعض خبروں کو نقل کرے اور بعض کو نقل نہ کرے تو وہ کم فروشی کے مانند ہے ۔
اگر تنقید راہ حل کے ساتھ ہو تو یقیناً بہتر ہے؛لیکن اگر تقیدکرنے والا راہ حل نہیں بتا سکتا تو تب بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے باب سے اپنا وظیفہ انجام دے ۔
وہ سچ کہ جو فتنہ پھیلائے یا کوئی مفسدہ ایجاد کرے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے؛ چاہے اس کا جھوٹ مصلحت آمیز ہویا بیہودہ اور چونکہ یہ بات اہم اور مہم قاعدہ کے تحت آتی ہے تو جھوٹ کے نقصانات اور فوائد کا آپس میں مقایسہ کرنا چاہیے، قابل ذکر ہے کہ اگر جھوٹ کی جگہ توریہ سے کام لے سکتے ہیں تو توریہ مقدم ہے، توریہ سے مراد وہ بات ہے جس کے دو معنی ہوتے ہیں؛ سننے والا اُس معنی کو سمجھے جو خلاف واقع ہے اور اس پر یقین بھی کرلے اور مصلحت حاصل ہوجائے، لیکن کہنے والا دوسرے معنی کا تصور کرے کہ جو واقع کے مطابق ہے ۔
ایک خبر نگار اُن لوگوں کو اطلاع رسانی کے ذریعہ جو لوگ اس کام کے مقابلے کے لئے آمادہ ہیں ایسے ہی معاشرے کی سطح پر اس کو نشر کرنے کے ذریعہ سے خصوصاً معاشرے میں اس چیز کی اطلاع پہنچانے کے ذریعہ کہ اس کام کے کتنے بڑے نقصانات ہیں اور معاشرے پر ان کا کتنا بُرا اثر ہوتا ہے، باواسطہ مدد کرسکتا ہے ۔
ایک خبر نگار امر ابالمعروف کے قوانین کے مطابق عمل کرسکتا ہے؛ وہ جگہ جہاں پر تاثیر کا احتمال ہو اور اُس پر کوئی ضرر بھی مترتب نہ ہو اور اس کام کا منکر ہونا بھی مسلّم ہو، تو وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرے، مگر یہ کہ اس کا کام (کہ جو واجب کفائی کے عنوان سے ہے) کو خطرہ ہو؛ اس صورت میں اس کام کو باواسطہ انجام دے؛ یعنی دوسروں کے ذریعہ۔
اس پر توجہ رکھتے ہوئے کہ نظام، اسلام کی بنیاد پر استوار ہے لہٰذا ایسا تضاد متصوّر نہیں ہے، مگر ان لوگوں کے لئے جن کی یا تو مسائل اسلامی کی طرف توجہ نہیں ہے یا وہ مصالح نظام سے بے خبر ہیں ۔
خبروں پر تبصرے کے لئے معمولاً قرائن وشواہد اور موجودہ حالات اور اسی طرح کے مسائل سے استفادہ کرنا چاہیے، اگر قطعی نتیجے تک پہونچیں تو بطور قطع اس کی قضاوت کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ عنوان احتمالی کے اوپر تکیہ کرنا چاہیے، تاکہ خلاف واقع کوئی بات نہ کہی جائے ۔
تسامح اور مدارا کے مختلف معنی ہیں، اگر اس سے مراد اسلام کے دشمنوں کے ساتھ میل جول کرنا اور دشمن کو دوست کے لئے نقصان ہنچانے کا موقع فراہم کرنا ہے تو ایسی چیز جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر صحیح وسالم گروہ یا دیگر مذاہب کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی گذارنا ہو، اس طرح کہ مسلمانوں اور آئین اسلام کو ضرر پہنچانے کا سبب نہ بنے تو جائز ہے ۔
ہر طرح کی وہ خبر جو اسلامی معاشرے کے لئے مضر ہو، یا دشمنوں کی بیداری اس سے ان کے لئے سوٴ استفادہ کا سبب ہو، یا مسلمانوں کی صف میں تفرقہ پھیلانے کا باعث ہو، یا مسلمانوں میں وحشت وناامنی ایجاد کرے یا اس کے اور دوسرے نقصانات ہوں، تو ایسی خبروں کو نشر نہیں کرنا چاہیے، ایسے ہی جنگ کے زمانے میں بہت سی خبریں چھپائی جاتی ہیں، اور خطرہ ٹلنے کے بعد نشر کی جاتی ہیں، اسی مطلب کے مانند دیگر موارد میں بھی کاملاً ممکن ہے ۔
جی ہاں، ممکن ہے کوئی خبر پچاس فیصد یا اس سے کم سچّی ہو، لہٰذا صدق وکذب میں درجہ بندی پائی جاتی ہے ۔
فقہ اسلامی میں ان دونوں موضوعوں کے لئے کوئی خاص اصطلاح نہیں ہے ۔ اگر فقہاء کے کلمات میں استعمال ہوتو اس کے وہ ہی عرفی اور عام فہم معنی ہیں ۔ خبر کسی واقعیت کو بیان کرتی ہے، لیکن تبلیغ کسی کام کی تشویق یا ترغیب کے مقصد سے انجام دی جاتی ہے ۔