واقعی اور جدّی مطالب کو طنز کے قالب میں پیش کرنا
کیا واقعی اور جدّی مطالب کو لطیفے ، چٹکلے، طنز وغیرہ کی صورت میں پیش کرنا شرعاً جائز ہے؟
جب تک غلط باتوں سے خالی ہو اور اس میں معاشرے کے سدھارنے کی غرض ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
جب تک غلط باتوں سے خالی ہو اور اس میں معاشرے کے سدھارنے کی غرض ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
یہ چیز اسلامی تواریخ اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم اور معصومین علیہم السلام کی سیرت میں، دیکھنے میں آئی ہے ۔
عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ ہر حال میں اپنے اسلامی وقار کی حفاظت کریں ۔
جب بھی اسلام کو خطرہ ہو، اور دفاع کے لئے اس راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو تو حاکم شرع کی اجازت سے یہ کام جائز ہے، لیکن اپنی مرضی سے اس کام میں ہاتھ نہ ڈالنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو تفرقہ یا سستی کا سبب ہوجائے ۔
اگر ان سے فقط وقت کی تضییع ہو تو یہ کوئی اچھا کام نہیں ہے، لیکن اگر ان میں بدآموزی اور خلاف شرع باتیں ہوں تو جائز نہیں ہے ۔
کامل طور سے اس کا امکان ہے؛ بشرطیکہ اس کے مضمون میں زیادہ دقّت سے کام لیا جائے ۔
دونوں کے بارے میں اسلامی آداب کا لحاظ رکھا جائے، اور خیال رہے کسی کی ہتک حرمت اور توہین نہ ہو، مگر وہ اقوام جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ۔
اگر ان علاقوں کے ساکنان کی توہین کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے ۔
فسلطین کا مسئلہ یقیناً ایک مہم مسئلہ ہے اور آج کل انتفاضہ کی تحریک ہر زمانے سے زیادہ زور وشور پر ہے اور بین الاقوامی اور اسلامی ممالک کے حالات میں بھی گذشتہ زمانہ کی بہ نسبت بہت زیادہ آیا فرق ہے، جس کی وضاحت کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے، اسی وجہ سے جدّی اقدامات کی ضرورت ہے چونکہ متفرق اقدامات خصوصاً ہمارے اس زمانے میں نتیجہ بخش نہیں ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف تنظیموں کے نمائندے ملکر ایک مضبوط پروگرام ترتیب دیں اور اس کی پشت پر اُن فلسطینیوں کی حمایت بھی ہو جو ہر روز بے رحم اور وحشی دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں منصوبہ بندی کی ترتیب کے لئے ایسے جلسے اور مٹنگ تکشیل دینا واجب اور لازم ہے ۔
اس کے موارد مختلف ہیں؛ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ جس مسئلہ پر اعتراض ہوا ہے وہ اسلام کی نظر میں بہت مہم ہے، جیسے دین کے مقدسات، یا مسلمانوں کے ممالک یا خود مسلمین کو خطرہ ہو، لیکن کبھی اس کی اہمیت جس کے لئے ہڑتال کی گئی ہڑتال کرنے والوں کی جان کے خطرے سے کم ہے خلاصہ یہ کہ اس مسئلہ کے حکم کا دار ومدار اہم اور مہم کے قاعدہ پر ہے ۔
اگر واقعاً توہین ہو تو جائز نہیں ہے ۔
اس کا معیار شرعی موازین کی رعایت، اور حلال کو حرام سے جدا کرنا ہے ۔