سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس: حروف الفبا جدیدترین مسائل پربازدیدها

طلاق کی عدّت کا فلسفہ

طلاق یافتہ خواتین کی عدّت کا کیا فلسفہ ہے ؟ اور کیا بانجھ عورتین یا جن خواتین نے اپنا رحم نکلوادیا ہے، اس قانون سے مستثنیٰ (جدا) ہیں ؟

جواب:۔ خواتین کی عدّت کے مسئلہ کے متعدد فلسفہ ہیں، فقط نطفہ منعقد ہونے پر منحصر نہیں ہے لہذا ان تمام موارد میں جہاں شریعت نے کہا ہے، خواتین کو عدّت رکھنا چاہئے ، اگر چہ بانجھ ہی کیوں نہ ہو یا اپنا رحم نکلوادیا ہو یا مثال کے طور پر، چند سال سے اپنے شوہر سے الگ رہ رہی ہو، ان تمام صورتوں میں اُن کو عدّت رکھنا چاہئے .

دسته‌ها: طلاق کی عدت

تمکین نہ کرنے والی عورت (بیوی) کی طلاق

میری زوجہ اسلامی احکام کے سلسلے میں، بے توجہ ہے تمکین نہیں کرتی اور ابھی غیر مدخولہ (یعنی اس کے دخول نہیں ہوا) ہے کیا اس کو طلاق دےسکتا ہوں ؟ اس کی طلاق کس نوعیت کی ہے اور مہر کا کیا حکم ہے ؟

جواب:۔مناسب ہے کہ اس کے ساتھ کچھ عرصہ تک، نرم برتاؤ اور اچھا سلوک کرو، اس کو نصیحت کرو ، اور اس کے ساتھ محبت سے پیش آؤ ، شاید آہستہ آہستہ بدل جائے اور طلاق کی نوبت نہ آئے اور حرام اور غیر واجب چیزوں کے علاوہ ، اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ، اگر اس کا بھی کوئی نتےجہ سامنے نہ آئے تو اس سے جدا ہوسکتے ہو، لیکن جو آپ نے تحریر کیا ہے اس کے مطابق آپ کی زوجہ ، ناشزہ (نافرمان) اور غیر مدخولہ ہے لہذا اس کو نفقہ کا حق نہیں ہے، اور اگر وہ طلاق لینا چاہئے تو اس کی طلاق ، طلاق، خلع ہے ، اورمہر کو بذل (بخش دینے) یا اس کے مثل کوئی اور چیز بذل (بخشے) کے بغیر نیز شوہر کی رضایت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں ہے .

دسته‌ها: طلاق خلع

بیوی کے بذل میں رجوع کرنے کی اطلاع شوہر کو نہ ہونا

میں نے سونے (بہار آزادی) کے سو سکّہ بخش کر اپنے شوہر سے طلاق خلع لے لی ہے، عدّت کے زمانے میں دفتر کے کلرک کو خط لکھ کر میں، بخشی ہوئی رقم میں رجوع کرنے کی اطلاع بھی دیدی تھی اب مجھے معلوم ہوا کہ کلرک نے، قانونی رجوع کے بارے میں، بھولے سے، دفتر میں تحریر نہیں کیا ہے، اس صورت میں رجوع کرنے کا حکم کیا ہے؟ کیا مجھے مہر کی رقم وصول کرنے کا حق ہے ؟

جواب:۔چنانچہ عدّت کے مدّت میں اپنی جانب سے بخشی ہوئی رقم میں ، رجوع کر لیا تھا، اور شوہر کو اس بات کی اطلاع دیدی تھی، تو اپنی بخشی ہوئی رقم کو واپس لینے کا حق رکھتی ہو، اور اگر شوہر کو اطلاع نہیں دی تھی اور عدّت ختم ہوگئی ہے، تو کافی نہیں ہے اور اگر کلرک، اس کام کا ذمّہ دار تھا اور اس کی تقصیر ہے تو وہی ضامن ہے .

دسته‌ها: طلاق خلع

طلاق رجعی (پہلی اور دوسری طلاق جس میں شوہر کو رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے) میں مطلّقہ بیوی کا شوہر کے گھر میں رہنا

طلاق رجعی کہ جس میں، زوجہ کو اس گھر سے، جس میں شوہر کے ساتھ زندگی بسر کررہی تھی ،نکلنا نہیں چاہیےٴ، اور شوہر کو، جب تک زوجہ مطلقہ عدّت میں ہے، گھر سے باہر نکالنے کا حق نہیں ہے، یہ منع کرنا کس کا وظیفہ ہے ؟زوجین کا یا اس دفتر کا جس میں طلاق، ثبت ہوتی ہے، یاطلاق پڑھنے والے کا یا پھر عدالت کا کہ جہاں سے طلاق کی اجازت ملتی ہے، اور اگر صیغہ طلاق کے جاری کرتے وقت شوہر اور زوجہ ایک دوسرے سے جدا زندگی گذارتے ہوں، یا اجنبی شہر میں طلاق دی جائے اور میاں بیوی ایک جگہ کے رہنے والے نہ ہوں تو کیا وظیفہ ہے ؟

جواب:۔قرآن مجید کی آیہٴ شریفہ اور دیگر تمام دلیلوں کے مطابق، یہ نہی زوجین کا وظیفہ ہے: لیکن عدالت یا شادی و طلاق کا دفتر، امر بالمعروف اور جاہل کی راہنمائی کے مسئلہ کے مطابق، انہیں اس حکم کے بارے میں ، آگاہ کرتے ہیں ، اور دونوں کی رہائش کے جدا ہونے کی صورت میں ، چنانچہ دونوں کی رضایت سے ہو، اور ان دونوں کے جدا جدا رہنے کا مطلب ، آپس میں ناراضگی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے .

دسته‌ها: طلاق رجعی

ظہار کا کفارہ

میں٢٤سال سے اپنی اہلیہ کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہوں ، ہمارے چھ بچے ہیں ، اس مدت میں اپنے ساس سسر اور سالے کی مستقیم مداخلت کا سامنا رہا اور میں نے ایک تلخ زندگی گذاری ہے ، یہاں تک کہ کچھ عرصہ پہلے بات برداشت سے باہر ہو گئی اور میںنے اپنی زوجہ سے جدا ہونے کا فیصلہ کر لیا اور چونکہ اپنے ارادے میں مصمم تھا لہٰذا میں نے چند نشستوںمیں فارسی زبان میں کہا: میری زوجہ میرے لئے میری ماں بہن کی طرح ہے ،لیکن اب میری اہلیہ اپنے کئے پر پشیمان ہو گئی ہے اور وعدہ کررہی ہے کہ پہلے کی طرح اپنے رشتہ داروں کے چڑاھا ئے میں نہیں آئے گی اور میں بھی اس کو دوبارہ موقع دینا اور اس کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتاہوں ، کیا میں اس کے ساتھ میاں بیوی کے عنوان سے زندگی بسر کر سکتاہوں؟

جواب: چنانچہ اگرآپ نے یہ بات اس حالت میں کہی ہے جب دو عادل گوہ موجود تھے ،اور وہ خاتو ن بھی، عادت (حیض)میں نہیں تھی ، نیز اس کے پاک ہونے کے بعد ،اس کے ساتھ مقاربت بھی نہیں کی تھی ،تو کفارہ لازم ہے اور اس کا کفارہ دو مہینہ روزے رکھنا ہیں وہ بھی اس طرح کہ اکتیس روزے پے در پے ہوں ،اور اگر روزے رکھنے پر قادر نہیں ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں ، لیکن اگر دو عادل گواہ موجود نہیں تھے تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہیں ہے اور ہر بات بے اثر تھی ، البتہ توجہ رہے کہ کفارے کے لازم ہونے کی صور ت میں ،جب تک کفارہ نہیں دو گے ،وہ حلال نہیں ہوگی۔

گمشدہ شوہر سے طلاق

ایسی خاتون جس کس شوہر کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فلاں حادثہ میں جاں بحق ہوگیا ہے یا لاپتہ ہے ، اور چار سال کے عرصہ سے اس کی کوئی خبر نہیں ہے، کیا یہ خاتون کسی دوسرے شخص سے شادی کرسکتی ہے ؟

جواب:۔ دوسرے شخص سے شادی نہیں کرسکتی ، مگر یہ کہ اس کے مرنے کا یقین ہو جائے، یاپھر حاکم شرع کے پاس رجوع کرے تاکہ وہ اُس شخص کے بارے میں تفتیش کا حکم دے اور شرعی مراحل طے کرنے کے بعد اس خاتون کو طلاق دیدے .

اس خاتون کا حکم جس کا شوہر مفقود (لاپتہ) ہو

اس عورت کا کیا وظیفہ ہے جس کا شوہر لاپتہ ہوگیا ہو اور اس مدّت میں اس عورت کا نفقہ کہاں سے ادا کیا جائے گا ؟

جواب:۔جس عورت کا شوہر لاپتہ ہوگیا ہو اس کی چند حالت ہیں :الف)اگر صبر کرے تاکہ اس کی کوئی خبر مل جائے تو کوئی ممانعت نہیں ہے، اس صورت میں اس کا نفقہ شوہر کے مال سے ادا کرنا چاہیےٴ .ب) اگر کوئی نفقہ دینے والا مل جائے، ولی ہو یا غیر ولی ہو، تو صبر کرے مگر یہ کہ شدید عسر و حرج یا مہم ضرر ونقصان ہوجائے، اس صورت میں حاکم شرع اس کو طلاق دے سکتا ہے .ج)ان دو صورتوں کے علاوہ، بات ، حاکم شرع تک جائے گی اور حاکم شرع، چار سال تک، اس کے لاپتہ ہونے کے مقام کے آس پاس کے علاقوں میں، تفتیش کرائے گا، اگر پھر بھی پتہ نہ چلے تو پہلے اس کے ولی کو طلاق دینے کی پیشکش کرے گا، اور اگر اس نے طلاق نہ دی تو خود طلاق دیدے گا، اس کے بعد عدّت وفات رکھے گی،(اگر چہ طلاق رجعی کی عدّت کافی ہونا بھی، قوی ہے، لیکن حتی الامکان احتیاط ترک نہیں ہونا چاہیےٴ) تب شادی کرے گی، اور اگر عدّت کے دوران ، پہلا شوہر آجائے تو وہی بہتر ہے، اور اگر عدّت کے ختم ہونے کے بعد (یہاں تک کہ دوسری شادی کرنے کے بعد بھی) پہلا شوہر آجائے تو بھی طلاق نافذ ہے،، اور فقط دونوں کی رضایت اور دوبارہ نکاح کے ذریعہ واپسی کا امکان ہے

جنگ میں لاپتہ لوگوں کی بیویوں کا وظبفہ

ایران و عراق کی جنگ میں لا پتہ ہونے والے لوگوں کی بیویاں ، جنہیں کئی سال سے اپنے شوہروں کی کوئی خبر نہیں ہے، کس صورت میں دوسری شادی کر سکتی ہیں ؟

جواب : اگر ان کے مرنے کا یقین ہو جائے تو اس صورت میں شادی کرنا جائز ہے اور اس کے علاوہ اگر اس حال میں رہنا ان کے لئے عسر و حرج اور شدید مشقت کا باعث ہو ، تو حاکم شرع ان کو طلاق دے سکتا ہے اور اس صورت کے علاوہ حاکم شرع کے حکم کے مطابق چار سال تک ان کے بارے میں چھان بین ہونا چاہئے ، اگر تب بھی ان کی کوئی خبر نہ ملے تو حاکم شرع ان کو طلاق دید ے گا۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی