ایسا وقف جس کا متولّی مرگیا ہو
بحرین کے ایک عالم دین نے، پچاس سال پہلے عزاداری کے لئے ایک جگہ وقف کی تھی تاکہ اس کی آمدنی سے عزاداری کی جائے، اپنی زندگی میں وہ خود متولی تھے اور ان کے انتقال کے بعد، بحرین کے ادارہ اوقاف سے کچھ لوگوں کو متولی کے عنوان سے معیّن کیا گیا ہے اُن متولّیوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں مجتہدین کی جانب سے بھی اجازت ہے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ وہ لوگ قابل اعتماد نہیں ہیں، اس تمہید کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمارے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) کیا یہ وقف اپنے وقف ہونے کی حالت پر باقی ہے اور ان کو حاکم شرع کے زیر نظر رہنا چاہیے یا مجہول المالک (جس کے مالک کا پتہ نہ ہو) کے حکم میں تبدیل ہوجائے گا چونکہ ان کے موجودہ متولی غیر شرعی ہیں؟
جواب: الف) اس طرح کے مسائل سے وقف ختم نہیں ہوتا بلکہ حاکم شرع سے اجازت لینا چاہیے۔ب) اگر وقف کی حالت پر باقی رہیں تو اس صورت میں ان کی آمدنی کو، وقف شدہ چیزوںکے علاوہ دوسری جگہوں پر جیسے امام باڑے کی دوبارہ تعمیر یا امام باڑے سے متعلق کوئی عمارت بنانے کے لئے استعمال کرنا تاکہ امام باڑے کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے، کیاایسا کرنا جائز ہے؟جواب: ب)موقوفہ کی آمدنی کو وقف کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، جیسا کہ یہی دستور روایات میں وارد ہوا ہے اور وقف کے قریب کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ اس مورد میں مصرف کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں جو مصرف وقف کے مصرف ہیں، ان میں استعمال کرنا چاہیے۔
موقوفات کے منافعہ کا لا ابالی خطیبوں کو دینا۔
کیا موقوفات کے متولی حضرات ، اموال موقوفہ کو ایسی مجالس پر خرچ کرسکتے ہیں جن میں مجلس پڑھنے والا حدیث کے صحت وسقم سے لاپرواہ ہو، اس کا کیا حکم ہے؟جواب: ایسے خطباء کو مدعو کرنا چاہیے ج
جواب: ایسے خطباء کو مدعو کرنا چاہیے جن کی مجلسیں مشروع ہوں۔
منیٰ کے باہر بعض حاجیوں کاخیمہ نصب کرنا
حاجیوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے بعض حاجیوں کے خیمے منیٰ کے باہر نصب ہوتے ہیں ان کا کیا وظیفہ ہے ؟
جواب :۔ ضرورت کے وقت اشکال نہیں ہے اور اس صورت کے علاوہ جائز نہیں ہے ۔
مصلحت کی وجہ سے وقف نامہ میں تبدیلی
موجودہ حالات کوبھی دیکھنا ہے اور حکومت اور ملّت اسلامیہ کی مصلحتوں کی بھی پیش نظر رکھنا ہے اور وقف کرنے والے شخص کی اصل نیّت کا بھی لحاظ رکھنا ہے، اب سوال یہ ہے کہ وقف کے استعمال کو، اسلامی حکومت کے تمام جاری پرورگراموں کے ساتھ ہماہنگ کرنے کی غرض سے ہمراہ ہوجائے، کیا واقف کے نظریات پر عمل کرنے میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے؟
جواب: اگر ممکن ہو تو وقف نامہ کے مطابق عمل کیا جائے اور اگر ممکن نہ ہو تب جو کچھ بھی وقف نامہ اور واقف کے نظریہ کے قریب ہو، اس پر عمل کیا جائے۔
قضا نماز کی تعداد میں شک
جس شخص کو یہ معلوم نہیں کہ اس کی قضا نمازیں کتنی ہیں ، اس کا کیا وظیفہ ہے ؟
جواب:۔ جس قدر معلوم ہے کہ سفر یا حضر میں اس کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ، انہیں بجا لائے اور جس میں شک ہے وہ واجب نہیں ہے، ضمناً معلوم ہو ناچاہئیے کہ قضا نماز میں ترتیب ضروری نہیں ہے مگر اس صورت میں ترتیب ضروری ہے جب کہ ایک ہی دن میں ظہر ، عصر ، مغرب اور عشا کی نمازیں قضا ہوئی ہوں ۔
بچّوں کے لئے وقف کرنا
ایک شخص نے اپنے مال کی کچھ مقدار کو وقف خاص کی صورت میں وقف کردیا ہے یعنی اپنے بچوں کے لئے وقف کردیا ہے، کیا یہ وقف صحیح ہے؟
جواب: اگر وقف کے دوسرے شرائط موجود ہیں تو اس صورت میں وقف صحیح ہے۔
ڈاکٹر کا دیت سے بری ہو جانا
ایسی صورت جس میں داکٹر کے لیے سقط کرنا ضروری ہو، دیت کس کے ذمہ واجب ہوگی؟ کیا ڈاکٹر کے لیے پہلے سے شرط کر دینا ضروری ہے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور کیا یہ شرط اس کے بری الذمہ ہونے کے لیے کافی ہے یا وہ اس کی گردن پر باقی رہے گی؟
جواب: احتیاط یہ ہے کہ ڈاکٹر مریض یا اس کے اولیاء سے یہ شرط کر دے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور اگر اس نے یہ شرط نہیں کی تو دیت اسے ہی ادا کرنا پڑے گی۔ (احتیاط کی بناء پر)
معالجہ کے ذریعہ سقط۔
مندرجہ ذیل موارد میں کیا روح پڑنے سے پہلے شقط کیا جا سکتا ہے:الف۔ ایسی بیماری کی صورت میں جس میں یقین ہوتا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کی بعد مر جائے گا؟ب: نسلی و خاندانی و ژنیٹیک امراض کی صورت میں؟ج: بچوں میں ہونے والی دوسری بیماریوں کی صورت میں؟
جواب: ان موارد میں سقط کرانا اشکال سے خالی نہیں ہے، خاص طور پر اس وقت جب مذکورہ بالا پیش بینیاں قطعی نہ ہوں۔
جاسوس کی سزا
جو جاسوس، اسلامی ممالک کی فوجی یا غیر فوجی معلومات، جان بوجھ کر دشمن کے حوالے کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں انھوں نے کبھی کبھی دوسرے ملکوں میں، ٹریننگ بھی حاصل کی ہے اور معلومات دینے کے بدلے رقم دریافت کرتے ہیں، یا انعام واجرت کے بعد یہ کام انجام دیتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ نیز کیا یہ لوگ محارب ہیں؟
جاسوس کو محارب کا عنوان دینا مشکل ہے، اس لئے کہ اس کی تعریف کے متعلق روایات اور فتووں میں کچھ امور کا تذکرہ ہوا ہے، جو جاسوس پر صادق نہیں آتے، البتہ جاسوسی کے بعض موارد پائے جاتے ہیں جو محاربہ سے بھی شدید تر اور بڑھکر ہیں، بہر حال بطور کلی، جاسوسی کو اسی کے مضمون کے لحاظ سے تقسیم کرنا چاہیے، اگر ایسی معلومات اور خبروں سے متعلق ہو جو اسلامی احکام کی بنیاد یا اسلامی حکومت کو ہلاکے رکھ دے یا اس جاسوسی کے ذریعہ مسلمانوں کی جان خطرے میں پڑجائے، تب تو یقینا اس کے اوپر سزائے موت کا حکم لگے گا، اسی طرح اگر اس جاسوس کی دی گئی معلومات، وسیع پیمانے پر فساد کا باعث ہوجائے اور ”مفسد فی الارض“ کا عنوان یقینی طور پر اس کے اوپر صادق آجائے، تب بھی اس کو سزائے موت دی جائے گی، لیکن اگر چھوٹی چیزوں کے بارے میں جاسوسی کی ہو جس سے مذکورہ مسائل ومشکلات نہ ہوں، جیسے غیر مہم اور بے خطر معلومات، غیروں کے حوالہ دینا، اس صورت میں اس کے اوپر تعزیرات کا قانون جاری ہوگا اور تعزیر (سزا) کی مقدار اس کی جاسوسی کی مقدار کے مطابق ہوگی ۔
تحریری سزاؤں میں صنف ( مرد و عورت) کی تاثیر
یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ فطری طور پر عورت، زیادہ حساس ہوتی ہے اور جلد ہی شیطانی وسوسوں کا اثر قبول کرلیتی ہے، کیا اس کی غلطیوں کی سزا مردوں سے مختلف ہوتی ہے؟
تعزیرات (اور سزا) کے مسائل میں اپنے اعمال کے بارے میں ہر شخص کی ذمہ داری کا تعلق، اس کے مختلف عوامل سے متاٴثر ہونے کی مقدار اور جرم کی نوعیت سے ہوتا ہے ۔
ثلث (۳/۱ ) مال کے حکم کا میت کی دیت میں بھی شامل ہونا
کسی نے اپنے ثلث (۳/۱)مال میں وصیت کی اور کار حادثہ میں جان بہ حق ہوگیا، میت کے وصی نے دیت کا دعوا کردیا اور دیت کی بابت قاتل سے ایک چیک وصول کرلیا، اس واقعہ کے بعد بعض وارثین نے رضایت دیدی اور بعض نے اپنے حصے کی دیت وصول کرلی، میت کے حصے کا حکم اور وصی کا وظیفہ کیا ہے؟
جواب: فرض مسئلہ میں ، ثلث مال بھی دیت سے متعلق ہے ۔
دوسروں کی میراث کے حصہ سے اعمال حج بجا لانا
اگر بعض وارث دوسرے وارثوں کا حصہ دیئے بغیر ( یعنی پوری میراث ہڑپ کرکے ) حج کرنے جائیں ، ان کا حج کرنا کیسا ہے اوران کے ساتھ صلہ رحم کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب:۔جب تک میراث سے بعض وارثوں کاحصہ ادا نہ کیا جائے اور مشاع ( شرکت)کی صورت میں ان کے حصہ کا مال میراث کے باقی مال کے ساتھ ہوتو اس میں تصر ف کرنا حرام ہے اور اگر اسی مال سے حج کرنے جائیں اور احرام کا لباس اور قربانی کو اسی مال سے مھیا کریں ، ان کے حج میں بھی اشکال ہے اور جب تک باقی وارثوں کا حصہ نہیں دیں گے وہ مال غصبی مال کے حکم میں ہے اور اگر ان کے ساتھ صلہ رحم کرنے یا نہ کرنے کا نہی عن المنکر میں کوئی اثر نہ ہو تو صلہ رحم کو ترک نہیں کرنا چاہئیے ۔