درخت پر لگے پھلوں کے بيچنے کا وقت
مسئلہ 1793:اگر درخت پر لگے پھلوں کو ان کا پھول جھڑنے سے پہلے چاہےں تو احتياط يہ ہے کہ حاصل زمين کے کوئي چيز مثلا موجود سبزي و غيرہ کو بھي اس کے ساتھ ہيچ ديں.
مسئلہ 1793:اگر درخت پر لگے پھلوں کو ان کا پھول جھڑنے سے پہلے چاہےں تو احتياط يہ ہے کہ حاصل زمين کے کوئي چيز مثلا موجود سبزي و غيرہ کو بھي اس کے ساتھ ہيچ ديں.
مسئلہ1794: کھيرا، ککڑي، بيگن اور ديگر سبزيوں کو جو سال ميں کئي مرتبہ توڑي يا کاٹي جاتي ہيں اگر ظاہر و نماياں ہوگئي ہوں تو ان کي خريد و فروخت ميں کوئي حرج نہيں ہے ليکن يہ معين کرنا چاہئے کہ خريدار سال ميں کتني مرتبہ توڑے گا.
مسئلہ1795:گيہوں اور جو کي باليوں ميں اگر دانے پڑگئے ہوں تو ان کا بيچنا صحيح ہے ليکن ان کو گيہوں اور جو سے بيچنا محل اشکال ہے اسي طرح خود کھيتي کو باليات نکلنے سے پہلے خريد اجا سکتاہے چاہے يہ شرط کرے کہ يہ پکنے تک باقي رہيں گي يا محض گھاس کے لئے خريدے.
مسئلہ 1797:ادھار ميں مدت مکمل طرح سے معين ہوني چاہئے اور اگر کوئي تاريخ معين نہ کرے تو معاملہ باطل ہے.
مسئلہ 1798:قسطوں پر بيچي ہوئي چيز کي قيمت کا مطالبہ اس کے مدت سے پہلے نہيں کيا جا سکتا ہاں اگر مالک (خريدار) مرجائے تو اس کے مال سے قيمت کا مطالبہ کيا جاسکتا ہے چاہے ابھي قرض دينے کا وقت نہ پہونچاہو.
مسئلہ 1799:وقت اجانے کي بعد اگر خريدار قيمت نہ دے سکے تو اس کچھ مہلت ديني چاہئے.
مسئلہ 1800:اگر کسي چيز کو نقد ايک قيمت سے اور قسطوں ميں اس سے زيادہ قيمت پر بيچے اور خريدار قبول کرے تو کوئي حرج نہيں ہے يہ سود بھي نہ ہوگا مثلا کہے اس چيز کو نقدار اتني قيمت پردوں گا اور قسطوںميں اتني قيمت پر.
مسئلہ ????: اگر کسي چيز کو قسطوں ميں بچے اور بعد ميں کچھ رقم کم کرکے نقد لے لے تو کوئي حرج نہيں ہے?
مسئلہ ????: بيع سلف کا مطلب يہ ہے کہ خريدار رقم پہلے ديدے اور چيز کو ايک مدت کے بعد لے? اس کے لئے اتني بات کافي ہے کہ مثلا خريدار کہے: ميں اتنے روپئے ديتاہوں اور چھ ماہ کے بعد اتني مقدار فلاں چيز لوں گا? اور بيچنے والا کہے: ميں نے قبول کيا? جبکہ اگر صيغہ بھي نہ پڑھے اور خريدار اسي نيت سے روپے دے اور بيچنے والا لے لے تو بھي کافي ہے?
مسئلہ ????: اگر روپئے کو بطور سلف بيچے اور اس کے بدلہ ميں روپئے بھي لے تو معاملہ باطل ہے? ليکن اگر کسي چيز کو بطور سلف بيچے اور اس کے عوض ميں روپئے يا کوئي دوسري چيز لے تو صحيح ہے اگر چہ احتياط مستحب يہي ہے کہ ہميشہ بدلے ميں رقم ہي لے کوئي دوسري چيز نہ لے?
مسئلہ ????: بيع سلف کے لئے چھ شرطيں ہيں:???????چيز کي ان صفات و خصوصيات معين کردے جن کيوجہ سے قيمت ميں فرق پڑتا ہے ليکن بہت زيادہ دقت کي بھي ضرورت نہيں ہے بس اگر يہ کہا جائے کہ اس س کے خصوصيات معلوم ہوگئيں تو کافي ہے اس لے جن چيزوں ميں خصوصيات کو معين نہ کياجا سکے وہ معاملہ باطل ہے مثلا گوشت و پوست کي بعض قسميں????????بيچنے والے اور خريدار کي جدائي سے پہلے پوري رقم ديدي جانے اور اگر تھوڑي سي رقم دے تو اسي مقدار کا معاملہ صحيح ہوگا? ليکن بيچنے والے کو اختيار ہے چاہے تو معاملہ کو فسخ کردے?????? مدت بھي مکمل طور سے معين ہو? لہذا اگر کہے کہ پہلي فصل ميں جنس حوالہ کروں گا (اور پہلي فصل دقيقا معين نہ ہو) تو معاملہ باطل ہے???????? جنس کا جو زمانہ معين کرے عمومي طور پر اسي زمانہ ميں وہ جنس پائي جاتي ہو???????? احتياط واجب کي بناپر جنس سپرد کرني کي جگہ بھي معين کرے کہ کس شہر ميں کس جگہ سپردکي جائے گي البتہ اگر ان کي گفتگو سے سپردگي کي جگہ معلوم ہو تو پھر معين کرنے کي ضرورت نہيں ہے??????? اس کے وزن يا پيمانہ کو بھي معين کريں? لکن جس جنس کا معاملہ عموما صرف ديکھ کر کياجاتا ہو جيسے قالين کے اقسام و غيرہ) اس کي صفات کو ذکر کرکے بطور سلف بيچيں تو کوئي حرج نہيں ہے ليکن اس ميں بھي فرق اشاکم ہو تا ہو کہ لوگ اس کواہميت نہ ديتے ہوں?
مسئلہ1806: بطور سلف خريدي ہوئي چيز کو اگر بيچنے والا معين شدہ اوصاف سے بہتر صفات والي جنس دے تو خريدار کو قبول کرنا چاہئے ليکن اگر معين شدہ بعض اوصاف نہ ہوں تو لوٹا بھي سکتا ہے.