۔ اگرظاہری سے صاحب ملک کی رضامندی
مسئلہ799۔ اگرظاہری سے صاحب ملک کی رضامندی روشن وقطعی ہوتووہاں نمازپڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے چاہے وہ زبان سے نه بھی کہے اوراسی کے برعکس اگرزبان سے اجازت دے لیکن معلوم ہوکہ دل سے راضی نہیں ہے تونمازنہیں پڑھ سکتا۔
مقدمه
بسم الله الرحمن الرحیم
1ـ رساله «توضیح المسائل» که متن نخستین آن توسّط چند تن از فضلاى حوزه علمیّه قم در عصر مرحوم آیة اللّه العظمى بروجردى ـ قدّس سرّه ـ بر طبق فتاواى ایشان تنظیم شد، گام مؤثّرى در طریق واضح ساختن احکام فقهى، براى اوّلین بار، جهت عموم مردم بود; چراکه هم اصطلاحات پیچیده مخصوص فقه که رساله هاى پیشین مملوّ از آن بود در توضیح المسائل وجود نداشت، و هم جمله بندى ها ساده و روشن، و در عین حال دقیق و منسجم بود; و به همین دلیل، اثر عمیقى در رغبت اقشار متدیّن نسبت به فهم مسائل دینى گذاشت.
بعد از «معظّم له»، مراجع بزرگ دیگر ـ کثّراللّه امثالهم ـ نیز ازآن متن استفاده کرده، با داخل نمودن فتاواى خود در متن مزبور، همان سنّت پسندیده را تعقیب کردند.
امّا از آنجا که جمله بندى هاى کتاب براى فتاواى مرحوم آیة اللّه العظمى بروجردى تهیّه شده بود، با مرور زمان و تلفیق با فتاواى بزرگان دیگر، ناهماهنگى هایى در آن به وجود آمد و سلاست و انسجام نخستین را از دست داد، تا آنجا که در این اواخر قسمت قابل توجّهى از «توضیح المسائل» دوباره شکل پیچیده به خود گرفت و فهم آن براى بعضى مشکل شد حتّى در بعضى از موارد، شاید تناقضهایى در آن به وجود آمد.
2ـ از سوى دیگر مشغله زیاد مراجع بزرگ، غالباً به آنها اجازه نمى داد که خودشان شخصاً تمام مسائل «توضیح» را بر فتاواى خود تطبیق و تغییرات لازم را در عبارات انجام دهند و این کار احیاناً زیر نظر فرد یا جمعى از فضلاى مورد اعتمادشان انجام مى شد و پیداست که طرز کار و دقّت این فضلا با خود مراجع فرق بسیار داشت هرچند هر دو از نظر شرعى حجّت بود.
3ـ از این گذشته، تغییرات تند و سریع جامعه سبب مى شد مسائلى که از محلّ ابتلا خارج شده بود و هنوز در آن به چشم مى خورد از توضیح المسائل خارج گردد و در عوض مسائل مهمّ مورد ابتلاء و حاجت به آن افزوده شود، تا جوابگوى نیازهاى مردم مسلمان در مسائل فقهى باشد.
در رساله حاضر این مشکلات بحمداللّه برطرف گشته و توضیح المسائل به طرز شایسته ترى عرضه شده است زیرا:
اوّلاً: با اصلاح کامل عبارات و بازنگرى دقیق، سلاست و انسجام و هماهنگى به توضیح المسائل بازگشته است.
ثانیاً: حضرت آیة اللّه العظمى مکارم شیرازى شخصاً بر تمام مسائل نظارت داشته و متون «توضیح» را با فتاواى خودشان که در «تعلیقات عروة الوثقى» آمده تطبیق نموده و مسائلى را که در عروه نبوده، بر آن افزوده اند و تمام عبارات را اصلاح کرده اند.
ثالثاً: مسائل غیر مورد ابتلاء از آن حذف و مسائل مورد حاجت به آن افزوده شده است و انشاءاللّه به صورتى درآمده که نفع آن عام و بهره گیرى از آن براى همه آسانتر باشد.
خداوند متعال به همه ما توفیق عمل به احکام اسلام و قرآن و سنّت پیغمبر اکرم(صلى الله علیه وآله)و ائمّه طاهرین(علیهم السلام) را عنایت فرماید و نیّت ما را خالص و در مسیر رضاى خودش قرار دهد!
«ناشر»
مسئلہ799۔ اگرظاہری سے صاحب ملک کی رضامندی روشن وقطعی ہوتووہاں نمازپڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے چاہے وہ زبان سے نه بھی کہے اوراسی کے برعکس اگرزبان سے اجازت دے لیکن معلوم ہوکہ دل سے راضی نہیں ہے تونمازنہیں پڑھ سکتا۔
مسئلہ 428: عورت چاہے سیدہ ہو یا غیر سیدہ پچاس سال کے بعد دونوں یائسہ ہوجاتی ہیں یعنی اگر خون آئے تو وہ خون حیض نہیں ہےليکن اگر خون ميں حيض کے تمام شرائط پائے جاتے هوں تو چاهئے که احکام حيض کے مطابق عمل کرے۔قمري 50 سال، شمسي 50 سال سے تقريباً 542 دن اور 18 گھنٹے يعني 18 مهينے اور تين دن کم هوتے هيں اس حساب سے شمسي اعتبار سے عورت تقريباً 48 سال 6 مهينے مين يائسه هوجاتي هے.۔
مسئلہ1032 اگر قہقہ کوروکنے کے لئے اپنے پراس طرح جبرکرے کہ اس کي حالت متغيرہوجائے رنگ سرخ ہوجائے، بدن ہلنے لگے اوراس طرح ہوکہ نماز گزارکي حالت سے خارج ہوجائے تواس کي نمازباطل ہے ليکن اگر اس حد تک نہ پہنچے تو کوئي اشکل نہيں ہے.
مسئلہ1024 اگرسوخي، مذاق، تفريح کے عنوان سے سلام کياجائے يا اتنا غلط سلام کيا جائے جو سلام ہي شمار نہ ہو تو اس کا جواب واجب نہيں ہے اور احتياط واجب يہ ہے کہ غير مسلم کے سلام کے جواب ميں صرف سلام کہے يا صرف عليک کہے.
1031 : ساتويں چيزسے جس نمازباطل ہوجاتي ہے وہ آوازکے ساتھ ہنسناہے( يعني قہقہ لگانا) خواہ وہ عمدا ہو يا بے اختيار ي طور سے، البتہ تبسم ومسکرانے سے نمازباطل نہيں ہوتي ہے چاہے جان بوجھ کر مسکرائے اسي طرح اگر يہ گمان ہو کہ نماز نہيں پڑھ رہا ہے اور بھولے سے قہقہ لگائے تو نماز باطل نہيں ہوتي.
مسئلہ1643: ہنرمند يا کاريگر ا?مدني اگر سالانہ اخراجات سے کم ہوتي ہو تو جتني کمي ہوني ہو اس کو يہ لوگ زکوة سے لے سکتے ہيں اپنے اور زار يا ملکيت کو بيچنے کي ضرورت نہيں ہے نہ اصل سرمايہ کو بيچنے کي ضرورت ہے.
مسئلہ 2309: جو شخص وقف کرے بنابر احتياط واجب صيغہ جاري کرنے کے وقت سے لے کر ہميشہ کے لئے وقف کرے اور ارگ يہ کہے: ميرے مرنے کے بعد ميرا يہ مال وقف ہے تو اس ميں اشکال ہے يا اگر کہے اب سے دس سال تک کے لئے وقف ہے تب بھي اشکال ہے بلکہ وقف، ہميشہ کے لئے اور صيغہ جاري کرنے کے وقت سے ہوتاہے.
مسئلہ 443 : اگر مرد ہمبستري کرے وقت سمجھے کہ عورت حائض ہوگئي ہے تو چاہئے کہ فورا الگ ہوجائے اور اگر جدا نہ ہو تو گناہ گار ہے اور احتياط مستحب ہے کہ کفارہ بھي دے.
مسئلہ 2085: لذت کي نظر سے ايک مرد دوسرے مرد کے بدن کو نہيں ديکھ سکتا اسي طرح عورت کا دوسري عورت کے بدن پر لذت کي نظر سے ديکھنا حرام ہے.
مسئلہ 1611: جس پر کجھور يا کشمش کي زکوہ واجب ہو وہ تازہ کجھور يا تازہ انگور سے زکوہ نہيں دے سکتا ليکن اس کو مستحق کے ہاتھ ہيچ کر اپنے قرضہ کو زکوہ سے لے سکتا ہے ليکن اگر تازہ کجھور يا انگور کو خشک ہونے سے پہلے ہيچ دے تو اس کي زکوہ کو اسي سے دے سکتاہے.
مسئلہ 1971: ہر وہ تصرف جو رہن کے مخالف ہو جائز نہيں ہے اس بناپر مقروض اور قرض خواہ ايک دوسرے کے اجازت کے بغير گروي مالي کو کسي کے مالک نہيں بتا سکتے مثلا نہ کسي کو بخش سکتے نہ بھيج سکتے ہيں ليکن اگر کوئي ايک بيچدے اور دوسرا بعد ميں اجازت ديدے تو کوئي حرج نہيں ہے اور احتياط ہے دونوں مےں سے کوئي بھي ايک دوسرے کي رضامندي کے بغير کوئي تصرف نہ کرے چاہے وہ تصرف رہن کے خلاف بھي نہ ہو.
مسئلہ 1233 : نماز یومیہ کی ہر نماز کو امام کی ہر نماز کے ساتھ اقتداء کرکے پڑھا جا سکتا ہے مثلا اگر امام نماز ظہر پڑھ رہا ہے اور یہ شخص ظہر پڑھ چکا ہے تو نمازعصر کو امام کے ساتھ با جماعت پڑھ سکتا ہے البتہ اگر امام احتیاطا نماز کا اعادہ کر رہا ہو تو اس میں اقتداء نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ کہ دونوں از لحاظ احتیاط ایک جیسے ہوں تو اقتدا ہوسکتی ہے۔