دفتر کے وقت میں پڑھنے اور مطالعہ کا حکم
دفتر کے اوقات میں فراغت اور بیکار ہونے کی صورت میں اس وقت سے پڑھائی کے لیے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
اگر اس وقت آپ کے ذمہ کوئی ذمہ داری نہ تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر اس وقت آپ کے ذمہ کوئی ذمہ داری نہ تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر اس وقت آپ کے ذمہ کوئی ذمہ داری نہ تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سرکاری کاموں اور سہولتوں کو ذاتی اور شخصی مفاد میں استعمال نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کہ دفتر کے ذم داران قوانین و ضوابط کے مطابق اس بات کی اجازت دیتے ہوں۔
جواب۔کتاب انوار الفقاہة ولاےت فقیہ کی بحث کے ذیل میں ہم نے اس مطلب کی طرف تفصیل سے تحریر کیا ہے۔
اگر آثار قدیمہ کمیٹی اس کمرے کی حفاظت کی ضرورت کا احساس کررہی ہے تو اس کو اس کی عادلانہ قیمت ادا کرنا چاہیے ۔ اس صورت کے علاوہ گھر کے مالکان اپنی جائداد میں تصرف کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔
ظاہراً جو اس حدیث یا اس جیسی دوسری حدیثوں میں آیا ہے وہ مال الخراج پر ناظر ہے؛ کیونکہ اراضی خراجیہ تمام مسلمانوں سے مربوط ہیں، لہٰذا خراج کے مال کو مساوی طور سے تقسیم ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بعید نہیں ہے کہ آپ کا یہ ارشاد اُن امتیازات کی طرف اشارہ ہو جو عثمان کے زمانے میں طاقتور لوگوں اور قبائل کے سرداروں کو دیئے جاتے تھے۔ لیکن اگرکثرت عیال، زیادہ کام یا زیادہ فعالیّت کی وجہ تنخواہوں میں فرق ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔
مسلمانوں پر غیر مسلموں کو کوئی امتیاز نہیں دیا جا سکتا، مگر صرف ضرورت کے وقت۔
اس طرح کے مسائل کے لیے ان کے ماہر اور معتمد افراد کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اگر ان کی نظر سے ثابت ہو جائے کہ بعض پوسٹیں اضافی ہیں ان کی ضرورت نہیں ہے تو ان ختم کر دینا چاہیے۔ البتہ جب تک یہ کام انجام نہیں پا جاتا اور تمام ذمہ داران، عہدہ داران کو اس بات کی اطلاع ہے تو آپ کو جو تنخواہ مل رہی ہے آپ کے حلال ہے۔
بیت المال کے سامان کا قانون کے دائرہ سے باہر، ہر طریقے کا استعمال حرام ہے ۔
وظیفہ واپس کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ اسے کوشش کرنی چاہیے جتنا اس نے بیت المال سے استفادہ کیا اس حد تک خدمت انجام دے۔