مدت زمان پاسخگویی به هر سوال بین 24 تا 72 ساعت است.

لطفا قبل از 72 ساعت از پیگیری سوال و یا ارسال سوال مجدد خودداری فرمائید.

از طریق بخش پیگیری سوال، سوال خود را پیگیری نمایید.

captcha
انصراف

زمان پاسخگویی به سوالات بین 24 تا 72 ساعت می باشد.

انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدهاپربازدیدها

انکم ٹیکس کا زیاده آنا

میری ایک دو کاان ہے اور میرے علاوہ میرے خاندان کے دیگر افراد بھی اس میں شریک ہیں اور کام کرتے ہیں اور میں الحمداللہ بچپنے سے ہی خمس دینے کا پائند ہوں اور ہر سال وجوہات شرعی ادا کرتا ہوں ۔ انقلاب اسلامی کے بعد ہر رقم میں سے کچھ، کسی نہ کسی بھی بہانے سے نکالتا ہوں ، خمس اور دیگر وجوہات شرعیہ کے لئے تو ایک مقدار معین ہے اور ہر مسلمان پر اس کا نکالنا واجب ہے اب رہا ٹیکس تو اس کی ادائیگی ہر با شندے کا قومی وظیفہ ہے اور اس کو بھی ادا کرنا چاہیے لیکن اس سے زیادہ کا وصول کرنے پر کوئی شرعی دلیل اور شرعی حجت نہیں ہے ۔ کیا ملک کی رونق کے لئے زیادہ کام کرنے کی جزاء جریمہ کا ادا کرنا ہے؟ اگر زیادہ کام نہ کرنا چاہیے اور زیادہ محنت نہ کرنا چاہیے تو کیوں علماء کرام، معصومین علیہم السلام کے اقوال سنا کر ہماری تشویق کرتے ہیں؟

جب ملک کی مشکلات کے حل کے کے لئے ٹیکس لینا ضروری ہو تو عادلانہ صورت میں لینا چاہیے، تاکہ لوگوں کو زیادہ کام زیادہ کوشش کی ترغیب دلائیں کہ جیسا کہ سنا گیا ہے زیادہ ٹیکس کہ جسکا نا مطلوب ہونا ثابت ہے، اس کی اصلاح کے اوپر تحقیق جاری ہے ۔

دسته‌ها: مالیات (ٹیکس)

ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود

بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟

مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: مالیات (ٹیکس)

ربیع الاول کی چاند رات کو مسجد کی پشت پر اجتماع

کچھ سالوں سے بہت سی مسجدوں میں ایک چیز کا رواج بڑھتا جارہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کی خرافات ہے، داستان اس طرح ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے کی پہلی تاریخ کی رات میں، آدھی رات سے اذان صبح تک، کچھ لوگ، (جن میں اکثر خواتین ہوتی ہیں) ہاتھ میں شمع لئے ہوئے مسجد کے پیچھے جمع ہوتی ہیںاور آہستہ آہستہ مسجد کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور دعا وٴمناجات اور کچھ اذکار پڑھتے ہوئے اپنی حاجت طلب کرتی ہیں اور تضرع وگریہ وزاری کی یہ حالت اذان صبح کے وقت اپنی پوری ترقی ہوتی ہے جو بھی اس طرح کا عمل انجام دیتی ہے تو جیسا کہ اس جلسہ میں موجود بعض خواتین سے سنا گیا ہے کہ: یہ کام ہم وغم کے دور کرنے، حاجتوں کے برآوردہ ہونے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے دل کی تسلّی کا باعث ہوتا ہے ۔لہٰذا حضور فرمائیں:۱۔ کیا ایسے عمل کی بنیاد، کوئی روایت ہے؟۲۔ کیا ایسا عمل(کہ جو پھیلتا جارہا ہے) شائستہ اور اچھے عمل ہونے کی حیثیت سے دوسروں کے لئے پیروی کا باعث ہے ۔۳۔ اگر یہ عمل (خدانخواستہ) خرافات اور ایک طرح کی بدعت ہو تو آئمہ جماعت اور متدین مومنین کا کیا وظیفہ ہے؟

اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ عمل معصومین کی روایات میں وارد نہیں ہوا ہے تو اس کو شرعی مسحتب کی حیثیت سے انجام دینا جائز نہیں ہے اور بہتر ہے کہ آئمہ جماعت لوگوں کو اُن توسّلات اور راز ونیاز کی طرف دعوت دیں کہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں وارد ہوئے ہیں، ورنہ ممکن ہے کہ منحرف افراد مذہب کی توہین کے لئے ہر روز ایک نئی بدعت ایجاد کریں اور اچانک اس کی طرف دعوت دیں ۔

دسته‌ها: مالیات (ٹیکس)

الیکشن میں کھڑے ہونے والے امید وار پر مجمع میں تبصرہ

الیکشن میں کھڑے ہونے والے کینڈیڈیٹ کے بارے سب کے سامنے یا دو لوگوں کا آپس میں تنقید اور اس کی برائیاں بیان کرنے کا کیا حکم ہے؟

اگر ان کو ووٹ دینے کے سلسلہ میں یہ مشورہ کی کڑی ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس میں ان کے صفات کا بیان ہونا چاہیے، ان کی توہین و تحقیر و تزلیل یا خدا نخواستہ ان پر تہمت نہیں لگانا چاہیے۔

دسته‌ها: الیکشن

زمانہ حاضر میں انفال کا حکم

آیات اور روایات کے ظاہری معنی کے مطابق، انفال دنیا کے تمام بیابانوں، پہاڑوں، جنگلوں اورسب دریاؤں کو شامل ہے ؛لیکن موجودہ شرائط میں بین الاقوامی ملکی سرحدیں معین ہیں جو تمام حکومتوںکے لئے قابل قبول ہیں اس صورت میں کیا انفال بھی ان سرحدوں میں محدود ہوجائے گا؟

جواب: ظاہر روایات بلکہ بہت سی روایات کی صراحت کے مطابق، انفال روئے زمین کے تمام منافع کو شامل ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ حاکم اسلامی اور ولی فقیہ مسلمانوں کے مفاد کے مطابق جہانی قوانین کا لحاظ کرسکتا ہے ۔

دسته‌ها: انفال

جنگلات کی ملکیت

کیا جنگلات پر ملکیت کا حکم جاری ہوتا ہے نیز کیا ان پر میراث ، وقف اور اجارہ وغیرہ کے مسائل جاری ہوں گے؟

جواب: ظاہر یہ ہے کہ اس طرح کے جنگلات پر ملکیت کا حکم جاری ہوتا ہے اور ان پر میراث، وقف اور اجارہ وغیرہ کے مسائل کا جاری کرنا صحیح ہے لیکن اسلامی حکومت قائم ہونے اور حکومت کا جنگلوں کو اپنی ملکیت میں لانے سے روکنے کے بعد ، حکومت کی مرضی کے بغیر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔

دسته‌ها: انفال

فرار مجرموں کے گھر کی قرقی کا حکم

کیا ملک چھوڑ کر بھاگ جانے والے افراد کے گھر کی قرقی کرنا جایز ہے؟ کیا صرف ملک چھوڑ کر بھاگ جانا ہی قرقی کے جواز کے لیے کافی ہے؟

رقی، صرف کسی فقہی عنوان کے تحت ہی کی جا سکتی ہے اور صرف ملک چھوڑ دینا یا فرار ہو جانا قرقی کا جواز نہیں بن سکتا بلکہ قرقی شرعی اعتبار سے ثابت ہونا چاہیے مثلا یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے سارا مال نا جایز طریقے سے ہتھیایا ہے اور مجہول المالک (جس مال کا مالک معلوم نہ ہو) کے حکم میں آ جائے۔

دسته‌ها: مصادره اموال

ایسے ملازموں کی تنخواہ کا حکم جو اکثر خالی رہتے ہیں

بعض اداروں میں ایسے شعبے اور پوسٹ موجود ہیں جن کا کام نہ کے برابر ہوتا ہے مگر وہ لوگ تنخواہ بھی لیتے ہیں اور دوسری سہولتوں سے بھی فایدہ اٹھاٹے ہیں یا ایسا ہوتا ہے کہ ہفتہ میں دو روز مفید کام انجام دیتے ہیں یا پورے دن میں انجام دینے والے عمل کو دو گھنٹے میں انجام دے سکتے ہیں مگر وہ اس میں سارا دن لگا دیتے ہیں۔ جناب کی نظر میں ایسے لوگ کو دفتر میں سارا بیکار ہوتے ہیں یا اصلا اس پوسٹ کا کوئی فایدہ نہیں ہو تو کیا ان کے لیے تنخواہ لینا اور دوسرے امکانات سے استفادہ کرنا حلال ہے؟ یا وہ بیت المال مسلمین کے مقروض ہیں لہذا جتنا کام کرتے ہیں اتنے کے مستحق ہیں؟ اس طرح کے تمام اداروں اور پوسٹوں کا حکم بیان کریں؟

اس طرح کے مسائل کے لیے ان کے ماہر اور معتمد افراد کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اگر ان کی نظر سے ثابت ہو جائے کہ بعض پوسٹیں اضافی ہیں ان کی ضرورت نہیں ہے تو ان ختم کر دینا چاہیے۔ البتہ جب تک یہ کام انجام نہیں پا جاتا اور تمام ذمہ داران، عہدہ داران کو اس بات کی اطلاع ہے تو آپ کو جو تنخواہ مل رہی ہے آپ کے حلال ہے۔

دسته‌ها: بیت المال
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی