اگر کسی میت کا کوئی وارث نہ ہو
اگر میراث کے کسی طبقہ کے بھی وارث موجود نہ ہوں تب کس کو میراث ملے گی ؟
اس کی میراث ، امام علیہ السلام یا ان کے جانشین کو ملے گی ۔
اس کی میراث ، امام علیہ السلام یا ان کے جانشین کو ملے گی ۔
جواب: مراد یہ ہے کہ شوہر کی میراث میں سے اس زوجہ کا حصہ جس کا شوہر صاحب اولاد ہو، حکم اوّلی کی بناپر ترکہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے لیکن جب والدین اور بیٹیوں کے حصے کے ساتھ جوڑا جائے اور سب کے حصوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو کل ۲۷ حصہ ہوتے ہیں (جب مال کے ۲۴ حصہ کئے جائیں تو ان میں سے دوتہائی ۱۶ حصہ ہوں گے اور چھ میں سے دو، ۸ حصّہ ہوں گے اور آٹھواں حصہ ایک تہائی حصہ قرار پائے گا اور ۱۶ و۸ و۳ سب کو ملاکر ۲۷ ہوجائیں گے) جب بھی ۲۷ حصّوں میں سے تین حصوں کو علیحدہ کیا جائے گاتو وہ کل مال کے نویں حصہ کے برار ہوگا، ا س حدیث کی تفسیر ووضاحت یہی تھی، لیکن تمام احادیث کو پیش نظر رکھ کر فقہی نظریات کے اعتبار سے، اس مسئلہ میں گفتگو کی گنجائش باقی ہے ۔
جواب:الف) اگر اس نے اسلام کا اظہار کیا ہے تو اس پر اسلام کے احکام جاری ہوں گے اگرچہ عبادت اور دینی وظیفوں کے انجام دینے میں کوتاہی کی ہے ۔ب) بظاہر صحیح تھا ۔ج) مذکورہ بچے جائز ہیں ان کو میراث ملے گی ۔د) مفروضہ مسئلہ میں کہ ابھی تک ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا اور آپ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں تو میراث کے بارے میں اسلامی قانون کے مطابق آپ لوگوں کو بھی میراث ملے گی ۔
جواب: فرض کریں کہ پہلے والد کا انتقال ہوا ہے اور ان کے ترکہ میں سے ایک حصہ ان کے اس مرحوم بیٹے کو مل گیا ہے جو اس کے بچوں کو مل جائے گا، پھر فرض کریں کہ بیٹے کا پہلے انتقال ہوا ہے اور اس کے اُس مال سے جو پہلے سے موجود تھا، اس کے والد کو میراث ملے گی اور باقی میراث اس کے بچوں کو پہونچے گی، مختصر یہ کہ میراث کے قانون کے مطابق، دونوں کو ایک دوسرے سے میراث ملے گی اور ان کا حصہ ان کے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا ۔
جواب:الف) غیر منقولہ چیزوں (جیسے باغات وغیرہ) کا آٹھواں حصّہ اور اسی طرح منقولہ چیزوں کا آٹھواں حصّہ دونوں بیویوں کو ملے گا، جو برابر دونوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ب) منقولہ مال کی آمدنی میں سے ، مذکورہ مدّت کے منافعہ کو ادا کریں اور احتیاط یہ ہے کہ غیر منقولہ چیزوں کے بارے میں بھی ایسا ہی کریں (یعنی مذکورہ مدت کا منافعہ ادا کریں)ج) ادا کرتے وقت کی قیمت معیار ہے ۔