خرچنگ اور دریائی کچھوا
کیا دریائی کچھوا اور خرچنگ حلال گوشت جونور ہیں؟
جواب : کچھوا اور خرچنگ حرام گوشت ہیں لیکن جھینگا حلال ہے۔
جواب : کچھوا اور خرچنگ حرام گوشت ہیں لیکن جھینگا حلال ہے۔
جواب: فقط ضرورت کے وقت ، اشکال نہیں ہے۔
جواب:الف) شک کے مواقع پر کہ جہاں معلوم نہ ہو کہ کس مادے سے حاصل کیا گیا ہے تو وہ حلیت اورطہارت کا حکم رکھتا ہے، اس کے بارے میں جستجو اور تحقیق بھی لازم نہیں ہے۔ب) اگر یقین ہو کہ حرام اور نجس مادے سے حاصل کیا گیا ہے تو اس پر استحالہ صادق نہیں آتا ، لیکن اس کے حلال اور پاک ہونے کے دوسرے طریقے موجود ہیں۔
جواب: کسی بھی حیوان کی دم حلال نہیں ہے اور اگر انڈے میں سرخ رنگ کا دھبَّہ یقینا خون ہو تو اس کا کھانا اشکال رکھتا ہے، مگر یہ کہ خون زردی کے باہر ہو اور زردی کو ایسے دھوئی جائے کہ پھٹنے نہ پائے تو بقیہ حصے کا کھانا ممانعت نہیں رکھتا ہے۔
جواب:جو کچھ روایات میں وارد ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بھیڑوں کو دو حصوں میں تقسیم کرے ان میں سے ایک حصہ کو قرعہ کے ذریعہ الگ کرے اور پھر دوبارہ دو حصوں میں تقسیم کر کے قرعہ ڈالے اور اس طریقہ پر عمل کرے ۔یہاںتک ایک بھیڑ رہ جائے لیکن اس طریقہ میںبھی جو تم نے تحریر کیا ہے کوئی مخالفت نہیں ہے ، اس لئے کہ جو کچھ روایت میں آیا ہے وہ قرعہ کی ایک قسم کا بیان ہے ۔
جواب : اس کا گوشت حلال ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ اس کے اندر کے خون سے پرہیز کیا جائے ۔
اگر ڈاکٹر کی بات پر یقین اور اطمینان حاصل ہو جائے تو کافی ہے اور اگر یقین نہ ہو تو کافی نہیں ہے۔
جواب: اگر یہ احتمال دیا جائے کہ یہ غذائیں ، کار خانوں یا آلات یادستانہ کے ذریعہ بنائے گئے ہیں تو کوئی اشکال نہیں ہے ، لیکن جب یقین ہو جائے کہ ان کے ہاتھ یا ان کے جسم کا مرطوب حصہ اس کھانے سے مس ہو گیا ہے تو اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ ضرورت کے موقعوں کے علاوہ اس سے پرہیز کرے لیکن ضرورت کے موقعوں پر جیسے غیر اسلامی ممالک میں سفر کے دوران ،اور سفر میں ان غذائوں سے پرہیز کرنا مشکل ہو تواس صورت میں پرہیز نہ کریں۔
جواب:احتیاط واجب کی بنا پر اس حیوان کے بچے بھی اسی کے حکم میں ہیں اور ضروری ہے کہ اسی ترتیب کے ساتھ ان کے بارے میں بھی قرعہ کشی کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔
جواب : حیوان کا کوئی بھی نجاست کھانا پاخانے کے علاوہ، اسکے گوشت اور دودھ کے حرام ہونے کا باعث نہیں بنتا لیکن اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے ۔
جواب : ضرورت کے وقت ایسے مواد کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جواب: قرعہ کشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور اسکو اپنے وظیفہ پر عمل ضرور کرنا چاہیے ، ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ عادل نہیں ہو سکتا ، مگر یہ کہ ایسا کرنے سے فساد وجود میں آ جائے ۔