سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

سرکاری نوکری کی عدالتی حیثیت

سرکاری نوکری کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیں؟ اس بات کے مد نظر کہ ان کی تنخواہیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہیں اور ریٹائرمینٹ کے وقت حکومت انہیں کارکردگی کے حساب سے فنڈ اور پنشن دیتی ہے؟

سرکاری نوکری طاہرا عقد اجارہ کے ضمن میں آتی ہے۔ نوکری کے دوران انجام دی جانے والی خدمات،ان کے اوقات اور تنخواہ کے عوض میں پیدا یونے والے معاملات سے اس عقد اجارہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتیں، انہیں ان دو طریقوں سے سمچھا جا سکتا ہے:الف: وکالت کے طور پر، نوکری کرنے والا خود کو نوکری کے آغاز سے مثلا تیس سال کی مدت، معین تنخواہ اور مقرر اوقات میں سرکار کو اپنی خدمات پیش کرتا ہے اور یہ عقد اجارہ (تحریر شدہ شکل میں یا عملی طور پر) دونوں فریق میں ہو جاتا ہے۔ پھر وہ حکومت اور سرکار کو اپنی مطلقہ وکالت دے دیتا ہے جس کے مطابق اگر حکومت چاہے تو مثلا پچیس سال یا اس سے کم و بیش مدت کے بعد اس قرارداد اور سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور وہ حکومت کو اس بات کی وکالت بھی دے دیتا ہے کہ وہ کام کے اوقات، تنخواہ کے تعین اور دوسری سہولتوں میں اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رد و بدل کر سکتی ہے اور جدید قرارداد اور اگریمینٹ نئے اصول و ضوابط اور ضرورتوں کے تحت تنظیم کر سکتے ہیں۔ حکومت ان معاملات میں جس طرح سے مالک کی حیثیت رکھتی ہے اسے طرح سے وکالت بھی رکھتی ہے۔ب۔ اس عرصہ میں پیش آنے والی تبدیلیوں کو شرط ضمن عقد کے تحت بھی حل کیا جا سکتا ہے، اس معنا میں کہ پہلی قرارداد میں یہ شرط ہوگی کی حکومت جب چاہے گی (قانون کے مطابق) اس سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور اسے ریٹائر یا مستعفی کر سکتی ہے۔ یا ایسا ہو سکتا ہے کہ نوکری کرنے والا یہ شرط رکھے کہ اسے تنخواہ کے علاوہ مزید پیسا دیا جائے جو قانون کے مطابق ہو۔واضح رہے کہ یہ شراءط بہت واضح نہیں یوتے مگر اس حد تک ضرور واضح ہوتے ہیں کہ ان پر عمل ہو سکے۔

دسته‌ها: آخرت

علم اصول کی تاسیس کی اہل سنت کی طرف نسبت دینا

کیا ذیل الذکر بات صحیح ہے:عصر ائمہ معصومین علیہم السلام میں شیعوں کو اجتہاد کی ضرورت نہیں پڑتی تھی لہذا علم اصول کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ علم اصول اہل سنت نے شروع کیا ہے اور شیعوں نے امام عصر علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں اجتہاد شروع کیا اور اہل سنت سے علم اصول کو حاصل کیا ہے لہذا علم اصول کے باب میں اہل سنت تاسیس میں بھی اور تالیف و تدوین میں بھی آگے رہے ہیں؟

علم اصول کی بنیادی اور اہم بحثیں نبی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہچی ہیں جیسے اصل براءت، احتیاط، استصحاب، ابواب تعادل و تراجیح، عام و خاص، مطلق و مقید وغیرہ اور معصومین علیہم السلام نے اپنے اصحاب کو ان سے روشناس کرایا اور ان مسئلہ میں بہت سے شیعہ علماء پیشگام رہے ہیں، مزید اطلاع کے لیے کتاب تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام مولف مرحوم سید حسن صدر کا مطالعہ کریں، آج بھی شیعہ علما علم اصول میں دوسروں سے کہیں زیادہ محکم اور ٹھوس ہیں۔

آنکھ میں درد کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا

آنکھ میں درد کے با وجود قرآن مجید کی تلاوت کرنا، جبکہ مطالعہ اس کے لیے ضرر کا باعت ہو اس بات کے مد نظر کہ وہ قرآن سے شدید انسیت اور لگاو کی وجہ سے روزانہ تلاوت کرتا ہے تو اس تلاوت کا کیا حکم ہے؟

ایسا کام جو نقصان کا باعث ہو انجام نہیں دینا چاہیے مگر اس قدر جس سے نقصان کا خطرہ نہ ہو اور اگر اس طرح سے وہ قرآن کی تلاوت س محروم ہو سکتا ہے تو جتنا حفظ ہے اس کی تلاوت کر سکتا ہے۔

دسته‌ها: قرآن مجید

گداؤں (بھکاریوں) کے مال ودولت

اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ بهیکاریوں کے ساتھ جرم کے عنوان سے کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی، بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پورے شہر میں فقیر اور تہی دست کے عنوان سے بھیک مانگتے ہیں، لوگ بھی ان کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے ہمدردی اور راٴفت کی رو سے ان کی مدد کرتے ہیں اور چونکہ ان فغقیروں کو اکھٹا کرنے پر ایک توافق انجام پایا ہے کہ جس کی ذمہ دار شہر داری اور انتظامیہ ہے اور ان کے ایک جگہ پر رکھنے کی ذمہ دار ”سازمان بہزیستی“ ہے کہ جس کا مرکز ہدایت (ہیڈکواٹر) کے نام سے مشہور ہے جتنی مدت یہ بھکاری لوگ اس مرکز میں ٹھہرائے جاتے ہیں اس مدت میں ان کو نہانے، دھونے، غذا لباس اور دیگر ضروریات زندگی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس سلسلے میں جناب عالی سے کچھ سوال مطلوب ہیں:۱۔ اس دستور العمل کے مطابق جو ”بہزیستی سازمان“ سے مراکز کو بھیجا گیا ہے، ہر فقیر کی سکونت کا ایک رات ایک دن کا خرچ ۱۵۰۰۰(پندرہ ہزار)ریال ہے جو ان سے لیا جائے گا ۔ کیا اتنا پیسہ لینا جائز ہے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس سے زیادہ لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ (قابل ذکر ہے کہ یہ پیسہ اُن پر یا دوسرے گداؤں پر خرچ ہوتا ہے)۲۔ بعض گدالوگ محجور ہیں اور ان کی قوہ عاقلہ زائل ہوگئی ہے اور ان میں سے بہت سےبہت زیادہ دولتمند ہیں اور کچھ کے گھر والوں کی ہم کو کوئی خبر نہیں ہے، اور چونکہ ہم ان کو ہمیشہ تو اپنے پاس رکھ نہیں سکتے، لہٰذا مجبور ہیں کہ ان کو چند روز بعد ان کے شہر اور محل سکونت میں پہنچادیں،لیکن ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ یہ اپنا پیسہ نہ کھو بیٹھیں ، کیا جائز ہے کہ ان سے پیسہ لے لیا جائے اور ”سازمان بہزیستی“ کے سپرد کردیا جائے تاکہ تمام مستحقین اور قابل امداد کہ جو اس مرکز کے تحت ہیں ان پر صرف کیا جائے؟

اوّلاً: اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ مسئلہ شرعی نظر سے پیچیدہ ہے، لہٰذا اس میں احتیاط اور باریک بینی سے عمل کیا جائے تاکہ آپ خلاف شرع کے مرتکب نہ ہوجائیں ۔ثانیاً: گداؤں کا وہ گروہ جس کے پاس زیادہ دولت اوزر ثروت ہے ان کے اموال مجہول المالک کے زمرہ میں ہیں، فقط ان کے ایک سال کے خرچ کے علاوہ اضافی پیسے کا دوسرے فقیر پر خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور وہ گدا جس کے پاس پیسہ کم ہے وہ سب کا سب انھیں کا مال ہے اور ان کے خرچ کے لئے اس پیسے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک دن کا خرچ مبلغ۰ ۱۵۰۰(پندرہ ہزار)ریال ان خدمات کے عوض ان سے لینا جو اُن کو دی جاتی ہیں بہت زیادہ ہے، مگر یہ کہ وہ مریض ہوں اور ان کو دن رات میں اتنی مقدار کی ضرورت ہو ۔ثالثاً: وہ گدا جو بہت زیادہ لاغر ہیں اور کام نہیں کرسکتے ان کے اموال کو دوسروں پر خرچ نہ کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ سال گذر جانے کے بعد بھی اسی چیز کا شکار ہوں گے ۔

دسته‌ها: بهیک مانگنا

کام کرنے والے طلاب کے وظیفہ لینے کا حکم

کیا کام کرنے والے طلبہ کے لیے شہریہ (وظیفہ) لینا جایز ہے؟ اب تک جو شہریہ لے چکے ہیں ان کیا حکم ہے؟

اگر شہریہ دینے والے مراجع حضرات نے شہریہ میں دینی اور حوزوی تعلیم جاری رکھنے کی شرط رکھی ہو تو ان طلبہ کے لیے اس کا لوٹانا ضروری ہے اور اگر ایسی کوئی شرط نہیں تھی تو وہ ضامن نہیں ہیں۔ شک کی صورت میں مراجع کے دفاتر سے سوال کیا جا سکتا ہے۔

نویں ربیع الاوّل کو بُرے کاموں کا انجام دینا

شیعہ حضرات نویں ربیع الاوّل کو جشن وسرور کی رسومات انجام دیتے ہیں، بہت سے لوگ ان رسومات میں رکیک باتیں یہاں تک کہ وہ باتیں بھی بولتے ہیں جن کو وہ خود خلاف شرع سمجھتے ہیں ؛ کبھی کبھی تو مرد عورتوں کا لباس پہنتے اور اُنھیں کی اداکاری کرتے ہیں! اور جب ان کو اس بات سے منع کیا جاتا ہے تو ”رفع القلم“ کی حدیث کو دلیل بناکر پیش کرتے اور کہتے ہیں کہ اس روایت کے مطابق مذکورہ اعمال میں کوئی اشکال نہیں ہے، کیا یہ عمل جائز اور اہل بیت عصمت وطہارت کی رضا کا سبب ہیں؟ عدم جواز کی صورت میں حدیث ”رفع القلم“کی کس طرح توجیہ کی جائے گی ۔

اوّلاً: ان مخصوص ایّام میں کوئی روایت رفع القلم کے عنوان سے معتبر کتابوں میں موجود نہیں ہے ۔دوسرے :یہ کہ اگر ایسی روایت ہو بھی (جب کہ نہیں ہے) تو کتاب (قرآن مجید) وسنت کے مخالف ہے، اور ایسی روایت قبول کرنے قابل نہیں ہے اور حرام اور گناہ کسی بھی زمانے میں جائز نہیں ہے، ایسے ہی رکیک باتیں اور دوسرے بُرے کام بھی ۔تیسرے: یہ کہ تولّیٰ اور تبّرا کے اور دوسرے راستے ہیں نہ یہ خلاف شرع راستے ۔

دسته‌ها: عقاید

لوگوں کی جانب سے رفاہ عام کےلئے کی گئی امداد کے انعامات تقسیم کرنا

قیدیوں کی حمایت کے لئے بنائی گئی ایک انجمن، خصوصاً قیدیوں کے گھرانوں کے سلسلہ میں، وسیع پیمانہ پر فعّالیت کرتی ہے، اس انجمن کی کارکردگی، تعلیم ، تربیت، اصلاح، رہنمائی، ہدایت، ان کی سرپرستی، نگہداشت، مکان کے لئے مدد، مکان کا کرایہ ، زندگی کا سازوسامان، علاج معالجہ، رہائی کے بعد دیکھ بھال، کام دلانا، کام کے مواقع فراہم کرنا، یا مالی مدد کرنا،تہذیب وتعلیمی کاموں پر تشویق کرنا اور ترغیب دلانا اور اسی طرح کے دیگر کاموں کو شامل ہے لیکن مالی بنیاد کمزور ہونے کی وجہ سے انجمن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر قادر نہیں ہے، قانون اور آئین کے تحت، عوام سے نقد یا غیر نقد مدد حاصل کرنے کی بنیاد پر رفاہ عام، نیک امور اور اقتصادی کام کرنے کی انجمن کو اجازت ہے، مذکورہ گھرانوں (جو ملکی سطح پر وسیع پیمانہ اور کثیر تعداد میں موجود ہیں) کی معیشت کو بہتر بنانے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے مقصد سے اور اس سلسلہ میں عوامی امداد وصول کرنے کے لئے، دولتمند نیک لوگوں کو، ”مسکراہٹ لانے والوں سے امید“ کے نام سے شیئر فروخت کرنا چاہتی ہے، مذکورہ شیئر کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سے خریداروں کی اجازت سے، کچھ رقم، قرعہ کے ذریعہ انعامات تقسیم کرنے میں خرچ کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کارِخیر کی طرف ان کے رجحان اور شوق میں اضافہ ہو اور اس کام کے لئے شرعی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا اس سلسلہ میں جنابعالی کا کیا نظریہ ہے؟

اگر یہ امداد مکمل طور پر نیک کاموں پر خرچ کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کا کچھ حصّہ انعامات اور قرعہ اندازی پر خرچ کیا جائے اور لوگوں نے اسی نیت سے مدد کی ہو تو اس میں اشکال ہے

دسته‌ها: قسمت آزمانا

فقہی مسائل کی ابواب بندی کا نظریہ

میں اصفہان یونیورسٹی میں حساب (میتھ) کا طالب علم ہوں، دینی اور حوزوی تعلیم سے شدید عشق کی بناء ہر میں اپنے دروس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پا رہا ہوں، میرا شرعی وظیفہ کیا ہے؟

بہتر ہوگا کہ آب راسخ عزم اور قوی ارادہ کے ساتھ اپنی یونیورسٹی کے کورس کو مکمل کریں اور اس کے بعد مزید بصیرت اور معرفت کے ساتھ آپ حوزہ اور دینی ادارے میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی