قرآن مجید کی تعلیم نہ لینے کی وجہ سے ، اولاد کی تادیب
کیا باپ ، بچہ کو قرآنی تعلیم سے سرپیچی کی وجہ سے تنبیہ کرسکتا ہے؟
بہتر ہے تشویق کے ذریعہ یہ کام انجام دے ۔
بہتر ہے تشویق کے ذریعہ یہ کام انجام دے ۔
زنا کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچہ کا حکم، پرورش اور اس کے اخراجات وغیرہ کے لحاظ سے (ان صورتوں کے علاوہ جہاں دلیل مستثنیٰ قرار دیتی ہے جیسے میراث کا مسئلہ) وہی ہے جو شرعی بچہ کا ہوتا ہے لہٰذا اس بناپر، محرم ہونے، اس کی پرورش، نگہداشت اور تربیت کے تمام احکام ولد الزنا کے بارے میں جاری ہوں گے فقط اس کو میراث نہیں ملے گی ۔
جواب: الف۔ اگر ایسا ہونا قطعی اور یقینی ہو تو نہ صرف یہ کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ہی مطابق احتیاط ہے۔ب: دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔
جواب: الف۔ اگر بچہ کی خلقت کامل نہ ہوئی ہو تو سقط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ب۔ اگر بچے نے ابھی انسانی شکل و صورت اختیار نہ کی ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے اس کا سقط کرنا جائز ہے۔ج۔ اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی بچ سکے گا تو ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ جس کو بچنا ہو وہ بچ جائے اور اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہ ہو اور اگر حالات یہ ہوں کہ یا دونوں مریں گے یا صرف بچہ مرے گا تو اس صورت میں بچہ کو سقط کرانا جائز ہے تا کہ ماں کی جان بچائی جا سکے۔د۔ مذکورہ بالا جوابات سے اس کا جواب بھی روشن ہو چکا ہے۔
جواب: مذکورہ تینوں صورتوں میں (حمل ٹھرنے کے بعد) نطفہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ایسا کرنا عام طور پر حرام لمس و نظر کا باعث ہوتا ہے لہذا صرف ایسی صورت میں جائز ہے جہاں شدید ضرورت کا تقاضا ہو۔
جواب: جبکہ واقعاً اس کی جان کو خطرہ ہو اور بچہ بھی چار مہینے سے کم کا ہو تو سقط جنین جائز ہے اور اس کی دیت بیت المال کو ادا کرے گی ۔
جواب: اس طرح کی مار پیٹ کا حکم، دیت اور ارش ہے؛ اور ماں باپ اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جواب: جہاں تک اس کے لیے ممکن ہو، اتنا کرنا واجب و ضروری ہے ۔
جواب: مہم یہ ہے کہ ڈاکٹر کا قول اور اس کا یقین جج اور قاضی کے لیے اس طرح کے موارد میں حجت نہیں رکھتا اور حتی کے اگر خود قاضی کا یقین جو اس روش سے حاصل ہوتا ہے وہ بھی حجت نہیں رکھتا بلکہ محل اشکال ہے، لہذا ضروری نہیں ہے کہ ڈاکٹر اپنے یقین کو اس طرح کے موارد میں پیش کرے اور نتیجہ کے طور پر بچہ حکم ظاہری کے مطابق اس کے شوہر سے ملحق ہو جائے گا اور اس طرح کے احکام ظاہری سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔
جواب: صاحب اولاد ہونے کے لیے کسی غیر مرد کا نطفہ حاصل اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔ بچہ کی پیدائش مستند اور صحیح شرعی شادی کے ساتھ ہونی چاہیے لیکن اگر ایسا انجام پا جائے تو بچہ صاحب نطفہ افراد سے متعلق ہوگا اور جس عورت کے رحم میں اس نے پرورش پائی ہے وہ بھی اس بچہ کے لیے محرم ہے مگر اس سے میراث نہیں پائے گا ۔
جواب: جس وقت بچہ ماں کے شکم میں حرکت کرنے لگ جاتا ہے اور یہ عام طور پر چار ماہ میں ہوتا ہے ۔
جواب: اگر ایسا ضرر ہے، جو درد سے نجات دلانے کے لیے دی جانے والی دوا کے مقابلہ میں عقلاء کے نزدیک قابل قبول ہوتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ضرر ایسا ہو جو اس کی جان کو خطرہ میں ڈال رہا ہو تو جائز نہیں ہے اور اگر مریضہ کو ضرر نہ پہچا کر شکم میں موجود بچے کو نقصان پہچا رہی ہو تو بھی جائز نہیں ہے ۔