بیٹے کی ساس (خوشدامن) سے، بیٹے کے باپ کی شادی
کچھ عرصہ پہلے بعض علماء سے سوال ہوا ہے کیا باپ کی شادی ، بیٹے کی ساس ( خوشدامن ) سے جائز ہے ؟گویا انہوں نے فرما یا کہ جائز نہیں ہے ، آپ کا نظریہ کیا ہے ؟
جائز ہے اور کوئی بھی حرام ہونے کا قائل نہیں ہے ۔
جائز ہے اور کوئی بھی حرام ہونے کا قائل نہیں ہے ۔
جواب:۔اگر کوئی خاص قرینہ نہ پایا جائے تو ظاہر یہ ہے کہ لڑکی کی ملکیت ہیں، جو باپ نے اپنی بیٹی کے احترام اور شوہر کے نزدیک اس کی عزت وآبرو بڑھانے کے لئے دیے ہیں
اگر اسے یقین ہو کہ مرد صحیح کہتا ہے اور اس نے نکاح غیر دائم (متعہ) پڑھا تھا تو اس صورت میں عقد نکاح باطل ہے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے کی میراث نہیں ملے گی لیکن ان کے بچوں کو ان کی میراث ملے گی مگر یہ کہ مرد جانتا ہو کہ یہ عقد باطل ہے ،اس صورت میں بچوں کو فقط ماں کی طرف سے میراث پہنچے گی ، مرد (باپ ) کی جانب سے نہیں ،اور مرد پر زنا کی حد (سزا)جاری ہو گی اور ہر حال میں مرد کو عورت مہرالمثل ادا کرنا ہوگا۔
جب یہ شرط لگائیں شرط پر عمل کرنا لازم ہے ، اور اگر شرط کے خلاف عمل کرے تو اس صورت میں ، بیوی ان کاموں کا خرچ ( اجرت ) ادا کرے ۔
جواب:۔اگر مذکورہ رقم کو عقد کے ضمن میں باپ کیلئے قرار دیا جائے تو حلال ہے اور سال گذرنے کے بعد اس پر خمس واجب ہے .
احتیاط یہ ہے کہ صیغہ نکاح دوبارہ اس مہر کے ساتھ جاری کریں جس پر دونوں متفق ہیں۔
اگر اس کے منحرف ہونے کا خوف نہ ہو تو اس صور ت میں کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن اگر عقیدہ میں منحرف ہونے کا امکان ہو تو جائز نہیں ہے ۔
یہ شادی جائز ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کو واجبات پر عمل کرنےکی دعوت دینا چاہئے ۔
جواب:۔اگر عقد کے ضمن میں،شرط کے طور پر وہ رقم لڑکی کے والد بزرگوار کیلئے قراردی جائے تو اضافی رقم ان کیلئے حلال ہے اور اگر لڑکی کیلےٴ قرار دی گئی ہو اور مہر کا حصّہ ہو تو لڑکی کی ملکیت ہے .
جواب:۔ خطرہ پیدا کرنے کی صورت میں جائز نہیں ہے .
جواب:۔کسی کو شادی کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کوتذکر دینا اور رہنمائی کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے اسی طرح ان موارد میں کہ جب قاضی ان کو معاف اور سزا دینے سے صرف نظر کرسکتا ہو تو اسے (قاضی کو ) حق ہے کہ معاف کرنے کو شادی کرنے سے مشروط قرار دے .