سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

مصالحت (صلح) کی رقم کے عنوان سے بیٹی کی شادی

کسی مقام پر دوقبیلوں کے درمیان لڑئی جھگڑا ہو جاتا ہے، اسمیں ایک بچّہ کی آنکھ نا بینا ہو جاتی ہے، پرصلح کے عنوان سے ایک دس سالہ لڑکی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت سے اس نابینا بچہ کے آٹھ سالہ بھائی سے کردیا جاتا ہے، خود وہ لڑکی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ راضی نہیں تھی اور نہ اب راضی ہے، لڑکی اور لڑکے کی قانونی عمر جس میں وہ لوگ اپنے کاموں میں مستقل مداخلت کرسکتے ہیں، ۱۸ سال ہے اٹھارہ سال سے کم عمر میں عدالت میںجایا جاتا ہے اور عدالت ان کو متخصص (اسپیشلسٹ) ڈاکٹر کے پاس بھےجتی ہے کہ بالغ وعاقل ہوگئے ہیں یا نہیں، چنانچہ سرکاری متخصص ڈاکٹر،ان کے بالغ ہونے کی گواہی دیدے تو عدالت اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے بھی بالغ ہونے کا حکم (سرٹیفکٹ)جاری کردیتی ہے . مذکورہ مورد میں اس طرح کا کوئی اقدام نہیں ہوا ہے لیکن سولہ سال کی عمر میں دونوں (شوہر و زوجہ) کے درمیان ایک نشست کی صورت میں یہ طے ہوا کہ درمیانی سطح کی تعلیم کے ختم ہونے تک دونوں حضرات تعلیم جاری رکھیں گے ، اس نشست کے بارے میں بھی اس لڑکی کا دعویٰ ہے کہ میرے ماں باپ نے مجھے دھمکی دی تھی جس کی وجہ سے میں نے اس معاہدہ پر دستخط کردیے تھے، اس طرح کی شادی، بعض دیہاتوں میں، مرسوم تھی اور رائج ہے ملحوظ رہے کہ امام خمینی ۺ کی کتاب تحریر الوسیلہ کی فصل ، نکاح کے اولیاء کے مسئلہ نمبر ۴ میں آیا ہے کہ ((یشترط فی صحة تزویج الاب والجد ونفوذہ عدم المفسدہ)) اور مسئلہ آخر میں بیان ہوا ہے ((الاحوط مراعات المصلحة)) کیا یہ مفسدہ نہ ہونا اور مصلحت کی رعایت کرنا لڑکی سے متعلق ہے یا لڑکی باپ اور فیملی سے مربوط ہے ؟ دوسرا سوال یہ کہ حقیقت میں اس قسم کا عمل، صحیح بھی ہے یا نہیں ؟

جواب:۔مصلحت ومفسدہ کی رعایت کرنا، لڑکی سے متعلق ہے، یعنی لڑکی کی مصلحت اور فائدہ، مد نظر ہونا چاہئے، اس کا ماں باپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، فیملی اور خاندان کے ملاحظہ اور گھاٹے و نقصان کا پورا کرنا، جواز نہیں بن سکتا ہے کہ نابالغ بچہ، صلح کا مال بن جائے ،رہا شریعت کی رو سے بالغ بچہ ، تو اس کا حکم واضح ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرنا صحیح نہیں ہے

نکاح نامہ کی حفاظت

نکاح نامہ کس کے پاس ہونا چاہیےٴ ؟ دلہن کے گھر والوں کے پاس یا دولھا کے پاس ؟

جواب:۔چنانچہ عقد سے پہلے نکاح نامہ کے بارے میں کوئی خاص شرط یا معاہدہ طے نہ کیا گیا ہو تو نکاح نامہ کو دلہن کے گھر والوں کو دینا چاہیےٴ اور ضرورت پڑنے پر شوہر اس کی گواہیدفتر (شادی بیاہ سے متعلق دفتر) سے حاصل کرسکتا ہے

جو رقم داماد سے جہیز کےلئے حاصل کی گئی ہے

لڑکی کے والد اپنی بیٹی کے جہیز کیلئے جو رقم داماد سے وصول کرتے ہیں وہ اگر جہیز کی مقدار سے زیادہ ہو (یعنی جہیز خرید کر بچ جائے) کیا وہ رقم لڑکی کے والد کیلئے حلال ہے ؟

جواب:۔اگر عقد کے ضمن میں،شرط کے طور پر وہ رقم لڑکی کے والد بزرگوار کیلئے قراردی جائے تو اضافی رقم ان کیلئے حلال ہے اور اگر لڑکی کیلےٴ قرار دی گئی ہو اور مہر کا حصّہ ہو تو لڑکی کی ملکیت ہے .

وہ تحفہ وتحائف جو لڑکی کے گھر والے دیتے ہیں

عام رواج کے مطابق نکاح اور رخصتی کے بعد دلہن کے گھر والے اپنی بیٹی کیلئے کچھ تحفہ و ہدیے لے جاتے ہیں، ان شوہر بیوی کے جدا ہونے یا دلہن کے مرنے کے بعد وہ تحفہ کس کے ہیں ؟

جواب:۔اگر کوئی خاص قرینہ نہ پایا جائے تو ظاہر یہ ہے کہ لڑکی کی ملکیت ہیں، جو باپ نے اپنی بیٹی کے احترام اور شوہر کے نزدیک اس کی عزت وآبرو بڑھانے کے لئے دیے ہیں

ایک دوسرے سے چپکے ہوئے جڑواں لوگوں کی شادی

دو جڑواں بچے جو ایک دوسرے سے چپکے ہوئے ہوں، ان کی شادی کا حکم بیان فرمائیں ؟

جواب:۔ اگر شادی کو ترک اور احتیاط پر عمل کرسکتے ہوں نیز شدید مشقت کا شکار نہ ہوں تو اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ شادی کرنے سے صرف نظر کریں لیکن اگر شادی کرنے پرمجبور ہوں تو اُن دولڑکیوں کی نمبروار یکی بعد دےگری ایک مرد سے شادی کردیں اس ترتیب کے ساتھ کہ پہلے وہ مرد، ان میں سے ایک لڑکی سے شادی کرے اور بعد میں اُسےطلاق دینے اور اس کے عدت گذارنے کے بعد دوسری سے شادی کرے (البتہ باربار طلاق کی مشکل سے بچنے کیلئے نکاح متعہ سے استفادہ کرسکتا ہے) دو جڑواں لڑکوں کےسلسلے میں بھی احتیاط یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو شادی نکریں، اور ضرورت کی صورت ایک وقت میں ایک لڑکی سے شادی کرنا جائز نہیں ہے لیکن اوپر بیان کیےٴ گئے طریقہ کے مطابقایک عورت سے شادی کرسکتے ہیں ، بہر حال چونکہ اس طرح کے اشخاص بہت ہی کم ہوتے ہیں لہذا، ان شرعی احکام کا بیان بھی، اگر عجیب نظر آئے تو بحث و گفتگو کی جگہ نہیں ہے

بیویوں کے درمیان عدالت وانصاف

بیویوں کے در میان عدالت سے کیا مراد ہے ؟

جواب:۔عدالت سے مراد یہ ہے کہ ان میں ہر بیوی کے ساتھ اس کے حالات کے مناسب سلوک کرے اور ہمیشہ عدالت کا مطلب برابری نہیں ہوتا اور حق القسم (بیوی میں راتوںکو تقسیم کرنے کا حق) کے سلسلہ میں یہ ہے کہ ہر چہار راتوں میں سے، ہر زوجہ کیلئے ایک شب مخصوص کرے

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت