سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

چوری کی سزا کا نصاب

یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ چوری کی حد (سزا) کا نصاب ایک چوتھائی شرعی دینار (کی مقدار )ہے اور اِس زمانے میں دینار ودرہم کا موضوع منتفی ہے یعنی درہم ودینار موجود ہی نہیں ہیں، اس صورت میں چوری کی حد کے نصاب کو کیسے حاصل کریں اور کیسے سمجھیں؟ کیا رائج الوقت سکّہ یا غیر سکّہ سونے کو معیار بنایا جاسکتا ہے؟

اہل علم وجانکار حضرات سے معلوم کرنا چاہیے کہ اگر دینار (سونے) کا سکّہ ہوتو اس کی کیا قیمت ہوگی جو بھی قیمت ہو اس کی ایک چوتھائی قیمت، حد سرقت کا نصاب ہوگی اور آخر کار جب بھی مقدار میں شک ہو تو قدر متیقن (جو یقینی مقدار ہو اس) کا حساب کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: چوری کی حد (سزا)

چور کے مال کی چوری کرنا

کیا چوری ہوئے مال کی چوری کی کوئی سزا ہے ؟ اگر ہاں توکیا ہے۔

جواب: اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ چور کئے ہوئے مال کی چوری کی کیا سزا ہے تو جواب یہ ہے کہ اس کام کی کوئی شرعی حد نہیں ہے ، لیکن ےہ کام لوگوں کے اموال میں تصرف کی خاطر تعذیر رکھتا ہے۔

چوری میں مدد کرنے والوں پر حد جاری کرنا

چوری میں مشارکت کے متعلق فرمائیے:الف) کیا چوری میں شریک ہونا، شریک کا چوری کرنے پر مشروط ہے؟ب) الف کا جواب مثبت ہونے کی صورت میں، کیا سرقت کا اجرائی عمل، فقط ما ل کو حرز سے باہر لانے کوہی شامل ہے؟ یا چوری کے متحقَّق ہونے میں ہر طرح کی مدد موٴثر ہے (جیسے حرز کا توڑنا، یا تجوری کا کھولنا وغیرہ) ج) کیا سرقت میں مشارکت فقط اس صورت میں محقَّق ہوگی جب ہر شخص ایک ہی چیز کو چرائے یا ہر شخص ایک جدا جدا چیز کو چرانے پر بھی سرقت میں مشارکت شمار ہوگی ؟ مثلاً اگر دو شخص ایک ساتھ ایک ہی گھر میں داخل ہوں ، ایک جواہرات اور دوسرا قیمتی آرٹ کو چرائے، کیا سرقت میں مشارکت متحقق ہوجائے گی؟

جواب: جی ہاں، اس کے چوری کرنے پر مشروط ہے۔جواب: اس صورت میں جب سب لوگوںنے چوری میں مدد کی نیت سے چوری کے عمل کو انجام دیا ہو (چاہے بصورت مباشر ہو یا بصورت تسبیب) اور دوسرے شرائط بھی موجود ہوں تو یہ تمام افراد چور شمار ہوں گے۔جواب: جب یہ تمام، ایک سرقت شمار ہوںتو ایک ہی سرقت کا حکم رکھتی ہیں۔

دسته‌ها: چوری کی حد (سزا)

چور کے کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑ نا

چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد، کیا چور، اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو طبّی مدد کے ذریعہ جڑوا سکتا ہے؟

فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱.۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵.

دسته‌ها: چوری کی حد (سزا)
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی