کرایہ دار کے ذریعہ موقوفہ کے اطراف کو آباد کرنا
ایک شخص نے وقف کی ہوئی زمین کے ایک حصّہ کو، اس کے متولی سے کرایہ پر حاصل کرلیا، کرایہ پر لینے کے بعد، اس شخص نے موقوفہ زمین کے قریب پڑی ہوئی کچھ بنجر زمین کو بھی آباد کرلیا، اس صورت میں کیا متولی، مذکورہ آباد کی ہوئی زمین کو بھی وقف میں شمار کرسکتا ہے، یا کرایہ دار اور اجرت پر لینے والا شخص اس زمین کا مالک ہوگا؟
جواب: چنانچہ وہ زمین، وقف کی شرعی حدود کے اندر تھی تو اجرت پر لینے والے شخص کو، اُسے آباد کرنے کا کوئی حق نہیں تھا اور وہ مالک بھی نہیں ہوگا اور جب تک کرایہ کی مدت ختم نہیں ہوجاتی اس وقت تک کرایہ دار کو آباد کی ہوئی زمین سے استفادہ کرنے کا حق ہے، متولی اس سے واپس لے نہیں سکتا البتہ اس شخص کو کرایہ ادا کرنا چاہیے لیکن کرایہ کی مدت کے ختم ہونے کے بعد، کرایہ دار کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔
مسجد کے لئے بنائے گئے طبقوں کا حکم
یہ مقرر ہوا ہے کہ ہمارے شہر کی مسجد کی عمارت کو گراگر اس کی جگہ بڑی اور خوبصورت مسجد بنائی جائے کیونکہ اس مسجد کی مفید عمر پوری ہوچکی ہے لہٰذا ذیل میں مندرج سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:۱۔ کیا سابقہ مسجد کا حکم نئی مسجد کی نیچے کی اور اوپر کی منزل کے اوپر جاری ہے؟ کیا جدید مسجد کی اوپری منزل کے حصّے کوکہ جو قدیم مسجد کی جگہ بنایا گیا ہے نئے استفادہ جیسے کتب خانہ، درس وتدریس کے لئے مخصوص کیا جاسکتا ہے؟جدید مسجد کے لئے ضروری ہے کہ قدیم مسجد کے شبستان میں سے دیوار اٹھانے، یا ستون اکھاڑنے یا گلدستہ اذا ن بنانے، یا خطبہ کے لئے ممبر بنانے کے لئے، تھوڑا حصہ لیا جائے، کیا یہ تصرف جائز ہے؟
مسجد کے احکام اس عمارت پر جاری ہوںگے جو قدیم، مسجد کی زمین کے اوپر بنائی گئی ہو، لیکن اگر اس کی زمین بڑھائی گئی ہو تو وہ وقف کے جدید صیغہ کے تابع ہوگی؛ لیکن کتب خانہ وغیرہ کا بنانا اگر نمازیوں کے مزاحمت کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں ہے ۔اس طرح کے تصرفات میں کیونکہ نمازیوں کے لئے مزاحمت کا سبب نہیں ہیں، کوئی حرج نہیں ہے ۔
مسجد کے موقوفہ رہائشی مکان کو کرایہ پر دینا
ایک امام جماعت سالہا سال سے مسجد کے موقوفہ مکان میں رہتے چلا آرہے ہیں، حالانکہ ان کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی موجود ہے، کیا وہ اس مکان کو چھوڑنے اور اپنے ذاتی مکان میں جانے کے بعد، اس موقوفہ مکان کو کرایہ پردے سکتے ہیں اور خود کرایہ لے سکتے ہیں؟
اگر مکان کو امام جماعت کی سکونت کے لئے بنایا گیا تھا تو اس کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے؛ مگر یہ کہ امام جماعت اس کو استعمال نہ کرے اور معطّل پڑا رہے؛ اس صورت میں اس کو کرایہ پر دیا جاسکتا ہے اور اس کے کرایہ کو مسجد کی ضروریات میں صرف کیا جاسکتا ہے اور اگر امام جماعت مجبور ہے کہ دوسرا گھر کرایہ پر لے تو اس کے کرایہ کا پیسہ امام جماعت کو دیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر اس کا خود ذاتی مکان ہو تو کرایہ کے پیسہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔
وقف اورتملیک مشاع (مشترکہ ملکیت ) کا حکم
اگر بعض چیزیں جیسے قالین وغیرہ کو چند مختلف لوگوں کی مشترک رقم سے خریدا جائے اور رقم دینے والے بعض لوگوں کی نیت، وقف اور بعض لوگوں کی نیت، تملیک ہو اس طرح کی صورت میں، مذکورہ طریقہ سے خریدی ہوئی چیزیں وقف میں شمار ہوں گی یا نہیں؟
جواب: ان میں سے ہر ایک کا اپنا حکم ہے اور اگر جدا ہونے کے قابل نہیں ہیں، تب طبیعی طور پر ان چیزوں پر وقف کے احکام جاری ہوں گے۔
امام جماعت کے معین کرنے میں واقف کی نظر
واقف چاہتا ہے کہ ہمارے پیش نماز اعلم اور مقامی ہونے چاہیے، لیکن حال حاضر میں جو امام جمعہ والجماعت ہیں وہ اس شہر کے رہنے والے نہیں ہیں، ایسے امام کی اقتداء میں نماز جماعت کا کیا حکم ہے؟
امام جماعت کو معیّن کرنے میں واقف کی رائے شرط نہیں ہے ۔
وقف کے مورد میں واقفین کا متعدد ہونا۔
کچھ رقم مسجد کے لاؤڈسپیکر ، ٹیپ ریکارڈ وغیرہ کے لئے جمع کی گئی تھی، ان وسائل کی خریداری کے بعد کچھ لوگ کہتے ہیں ”ہمارا مقصد یہ تھا کہ ان کو فقط مسجد میں ہی استعمال نہ کیا جائے بلکہ مسجد کے باہر مذہبی محافل ومجالس سیدالشہداء میں استعمال کیا جائے“ کچھ لوگ کہتے ہیں ”کہ ہم نے جو پیسہ ان وسائل کی خریداری کے لئے دیا تھا، مسجد کے وقف کے عنوان سے دیا تھا“ اب آپ فرمائیں کون سی جہت مقدم ہے؟
جواب: ان لوگوں کی نظر جنھوں نے پیسے کو وقف خاص کے عنوان سے دیا تھا، انھیں کی نظر کے مطابق عمل کیا جائے۔
ایسا وقف جس کا متولّی مرگیا ہو
بحرین کے ایک عالم دین نے، پچاس سال پہلے عزاداری کے لئے ایک جگہ وقف کی تھی تاکہ اس کی آمدنی سے عزاداری کی جائے، اپنی زندگی میں وہ خود متولی تھے اور ان کے انتقال کے بعد، بحرین کے ادارہ اوقاف سے کچھ لوگوں کو متولی کے عنوان سے معیّن کیا گیا ہے اُن متولّیوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں مجتہدین کی جانب سے بھی اجازت ہے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ وہ لوگ قابل اعتماد نہیں ہیں، اس تمہید کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمارے دوسوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) کیا یہ وقف اپنے وقف ہونے کی حالت پر باقی ہے اور ان کو حاکم شرع کے زیر نظر رہنا چاہیے یا مجہول المالک (جس کے مالک کا پتہ نہ ہو) کے حکم میں تبدیل ہوجائے گا چونکہ ان کے موجودہ متولی غیر شرعی ہیں؟
جواب: الف) اس طرح کے مسائل سے وقف ختم نہیں ہوتا بلکہ حاکم شرع سے اجازت لینا چاہیے۔ب) اگر وقف کی حالت پر باقی رہیں تو اس صورت میں ان کی آمدنی کو، وقف شدہ چیزوںکے علاوہ دوسری جگہوں پر جیسے امام باڑے کی دوبارہ تعمیر یا امام باڑے سے متعلق کوئی عمارت بنانے کے لئے استعمال کرنا تاکہ امام باڑے کی آمدنی میں اضافہ ہوجائے، کیاایسا کرنا جائز ہے؟جواب: ب)موقوفہ کی آمدنی کو وقف کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، جیسا کہ یہی دستور روایات میں وارد ہوا ہے اور وقف کے قریب کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ اس مورد میں مصرف کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں جو مصرف وقف کے مصرف ہیں، ان میں استعمال کرنا چاہیے۔
۔وقف کے بکے ہوئے مال کا تصرف
ان موقعوں پر کہ جب وقف شدہ یا مسجد کی ملیکت میں دی گئی چیزوں کو ہمارے لئے فروخت کرنا جائز ہو، کیا اس رقم سے مسجد کی ضرورت کی دوسری چیزوں کو خرید سکتے ہیں، یا فقط انہی کے جیسی چیزوں کو خریدا جاسکتا ہے؟
جواب: ضرورت کی صورت میں ان ہی کے جیسی چیزوں کا خریدنا مقدّم ہے۔
عین موقوفہ کو واقف کی ضرورت کے وقت عین موقوفہ کو پلٹانے کے شرائط۔
ایک گھر کے وقف کاصیغہ اس پر مشروط ہوا تھا کہ واقف ضرورت کے وقت عین وقف کو اپنی طرف استرداد (پلٹانے) کا حق رکھتا ہے، واقف نے وقف سے پہلے اس گھر کو تیس (۳۰) سال کی مدت کے لئے کرایہ (اجارہ) پر دے دیا اور اپنے لئے خیار فسخ کا حق محفوظ رکھا، اب تیس سال گذرجانے پر اس گھر کو موقوف علیہ کے سپرد کرنا چاہیے لیکن حال حاضر میں ابھی اس کے کرایہ کی مدت کے ۱۲ سال باقی ہیں، دوسری طرف سے یہ کہ یہ گھر حضرت معصومہ (س) کے حرم کو توسعہ دینے کے پلان میں آگیا ہے اور عنقریب ٹوٹنے والا ہے تو آپ فرمائیے:۱۔ کیا اس پیسہ سے جو شہرداری (میونسپلٹی) اس گھر کے انہدام کی بابت ادا کرے گی دوسرا مکان خریدا جائے اور تیس سال پورے ہوجانے کے بعد موقوف علیہ کے سپرد کردیا جائے؟۲۔ کیا باقی ماندہ مدتِ اجارہ وارث کی طرف منتقل ہوجائے گی؟
جواب: مذکورہ وقف اشکال رکھتا ہے ، وہ مال میّت کے دوسرے اموال کی طرح وارثین میں تقسیم ہوگا اور نیز باقی ماندہ مال الاجارہ میت کے وارثوں سے متعلق ہے۔
موقوفہ ملکیت کا وقف کے اخراجات کا پورا نہ کرنا ۔
ایک شخص نے ایک باغ کو وقف کیا، تاکہ اس کی درآمد سے مجالس عزا برپا کی جائیں اور حضرت امام حسین - کے نام پر کھانا بھی کھلایا جائے لیکن اس کی درآمد ان دونوں کاموں کے لئے ناکافی ہے، اب کیا ہونا چاہیے؟
جواب: اگر ممکن ہو تو مجلس اور اطعام (کھانا کھلانا) کو مختصر طور پر انجام دیا جائے تاکہ دونوں کام حاصل ہوجائیں اور اگر یہ ممکن نہیں، اس چیز پر عمل کریں جو پہلے ذکر ہوئی ہے۔