لفظی فسخ
کیا کسی معاملہ کے فسخ ہو نے کے لئے زبانی ولفظی فسخ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی ایسا عمل انجام دے جو فسخ کرنے پر دلالت کرتا ہو ؟
جواب۔ تنہا زبانی و لفظی فسخ کافی ہے جیسا کہ تنہا عملی فسخ بھی کافی ہوتا ہے
جواب۔ تنہا زبانی و لفظی فسخ کافی ہے جیسا کہ تنہا عملی فسخ بھی کافی ہوتا ہے
جواب۔اگررقم دینے اور لینے والے حضرات معاملہ مربوط کام میں موجود تھے تو آدھا معاملہ فسخ ہو جائے گا اور اگر دوسرے کا ارادہ قرض دینے جیسا تھا تو معاملہ اپنی جگہ پر باقی ہے
جواب۔ مفروضہ مسئلہ میں شرط کی مخالفت کرنے کی صورت میں بیچنے والے نے معاملہ کو فسخ کرنے کا حق اپنے لئے محفوظ رکھا ہے لہٰذا فسخ کرنے کا حق ہے لیکن اگر نتیجہ کی شرط کی صورت میں کہا ہے تو ان علماء کے نظریہ کے مطابق جو نجتیجہ کی شرط کو صحیح جانتے ہیں معاملہ خود بخود فسخ ہو جائے گا اور چونکہ ہم نتیجہ کی شرط کے بارے میں احتیاط کے قائل ہیں لہٰذا احوط(زیادہ احتیاط)یہ ہے کہ اس مقام پر آپس میں مصالحت کریں
جواب : اس کا فسخ کرنا صحیح ہے اور اسے دس لاکھ تومان خریدار کو دینا چاہئے
جواب۔ہمارے زمانہ میں قیمتوں میں اضافہ کا مسئلہ اس شدّت اور وسعت کے ساتھ جو کاغذی پیسہ (کرنسی) کی دین ہے۔ جب بھی عام لوگوں میں مرسوم اور رائج ہونے کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہو جائے مفروضہ مسئلہ میں سود شمار نہیں ہوگا۔(جیسا کہ بعض بیرونی ممالک کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں بینک میں جمع رقم کے سلسلہ میں بھی قیمتوں میں اضافہ (مہنگائی)کا محاسبہ کرتے ہیں اور سود کا بھی حساب کرتے ہیں )۔ایسے حالات اور شرائط میں مہنگائی کا حساب کرنا سود نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ فائدہ لینا سود ہے لیکن پمارے معاشرہ میں اور اسی طرح کی دوسری جگہوں پر کہ جہاں عاملوگوں میں مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ کا حساب نہیں ہوتا لہٰذا سب کا سب سود شمار ہوگا۔ اس لئے کہ جو لوگ ایک دوسرے کو قرض دیتے ہیں چند مہینہ یا اس سے زیادہ مدّت کے گزر جانے کے بعد بھی اپنی معیّن رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور مہنگائی کے فرق کا حساب نہیں ہوتا اور رہی ےہ بات کہ علمی نشستوں میں مہنگائی کا حساب ہوتا ہے فقط ےہی کافی نہیں ہے اس لئے کہ معیار وہ ہے جو عام لوگوں میں رائج ہے لیکن ہم ایک صورت کو مستثنیٰ(الگ)کرتے ہیں اور وہ ےہ کہ مثال کے طور پر تیس سال گزرنے کے بعد بہت زیادہ فرق ہو گیا ہو۔لہٰذا خواتین کا قدیم مہر یا انکے اسی طرح کے دیگر مطالبات کے سلسلہ میں ہم احتیاط واجب جانتے ہیں کہ آج ادا کرنے کے وقت کی قیمت کا حساب کیا جائے یا کم از کم مصالحت کی جائے ۔
جواب ۔سونے کا سونے سے معاملہ کرنا دونوں کے وزن میں فرق ہونے کی صورت میں جائز نہیں ہے اگر چہ ان میں سے ایک مرغوب اور دوسرا نا مرغوب ہی کیوں نہ ہو ،معاملہ کے صحیح ہونے کا راستہ یہ ہے کہ بہترین اور مرغوب سونے کو خرید کر پیسے بنا لے اور اس کے بعد دوسرے سونے کو اسی طرح بیچ دے
عام طور پر بچوں کے والدین اپنے بچوں کو اس لئے پیسے دیتے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کا سامان خریدیں اور اُن کے اس طرح کے اکثر معاملات خصوصاً کتاب، قلم اور کاپی کی خریداری کے سلسلہ میں راضی ہوں، لہٰذا والدین کی وہی عام رضایت کافی ہے
جائز نہیں ہے؛ بہتر ہے دونوں معاملے الگ الگ انجام دیئے جائیں۔
جب تک چیک وصول نہ کرے اس وقت تک اس نے سود نہیں لیا ہے ۔جب تک اس رقم کو وصول نہ کرے، سود خوری شمار نہیں ہوگی اور شریعت کی رو سے ایک سود خور کی حیثیت سے اس کا تعاقب نہیں کیا جاسکتا ۔
جواب۔ اگر بینک کا قانون شرعی عقود کے سلسلہ میں اور عملی ریاست سے نجات دینے کی راہ پر گام زن ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
جواب: وہ ہر طرح کے وسائل جو عام طور پر حرام کام کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کا بنانا اور خرید و فروخت کرنا حرام ہے لیکن اگر کوئی آلہ مشترک (یعنیحرام و حلال دونوں میں استعمال کیا جاتا )ہے تو جائز ہے
جواب : اس طرح کے موقعوں پر سونے کے معاملات کابہترین راستہ یہ ہے کہ جدا جدا دو معاملہ انجام دئے جائیں مثال کے طور پر ایک کلو سونے کو نقد ۱۱لاکھ تومان کی قیمت پر فروخت کرے اور اسی نشستمیں سونے اور اس کی قیمت کو ردو بدل کرے (یعنی سونا دیں اور قیمت لے لیں )اس کے بعد ایک کلو سونے کو جیسے پورے ایک سال میں حوالہ کیا جائے دس لاکھ کی قیمت پر اس سے خرید لے نتیجہ وہی ہوگا کہ سونے مالک ان دو معاملوں سے اپنا سونا سال میں ایک لاکھ تومان اضافہ کے ساتھ واپس حاصل کر لے گا