سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

انکم ٹیکس کا زیاده آنا

میری ایک دو کاان ہے اور میرے علاوہ میرے خاندان کے دیگر افراد بھی اس میں شریک ہیں اور کام کرتے ہیں اور میں الحمداللہ بچپنے سے ہی خمس دینے کا پائند ہوں اور ہر سال وجوہات شرعی ادا کرتا ہوں ۔ انقلاب اسلامی کے بعد ہر رقم میں سے کچھ، کسی نہ کسی بھی بہانے سے نکالتا ہوں ، خمس اور دیگر وجوہات شرعیہ کے لئے تو ایک مقدار معین ہے اور ہر مسلمان پر اس کا نکالنا واجب ہے اب رہا ٹیکس تو اس کی ادائیگی ہر با شندے کا قومی وظیفہ ہے اور اس کو بھی ادا کرنا چاہیے لیکن اس سے زیادہ کا وصول کرنے پر کوئی شرعی دلیل اور شرعی حجت نہیں ہے ۔ کیا ملک کی رونق کے لئے زیادہ کام کرنے کی جزاء جریمہ کا ادا کرنا ہے؟ اگر زیادہ کام نہ کرنا چاہیے اور زیادہ محنت نہ کرنا چاہیے تو کیوں علماء کرام، معصومین علیہم السلام کے اقوال سنا کر ہماری تشویق کرتے ہیں؟

جب ملک کی مشکلات کے حل کے کے لئے ٹیکس لینا ضروری ہو تو عادلانہ صورت میں لینا چاہیے، تاکہ لوگوں کو زیادہ کام زیادہ کوشش کی ترغیب دلائیں کہ جیسا کہ سنا گیا ہے زیادہ ٹیکس کہ جسکا نا مطلوب ہونا ثابت ہے، اس کی اصلاح کے اوپر تحقیق جاری ہے ۔

دسته‌ها: مالیات (ٹیکس)

گاؤں والوں کا کچھ خاص قوانین بنانا

معمولاً دیہاتوں میں لوگ نظم و ضبط کی حفاظت کے لئے کچھ قوانین بنا تے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مویشیوں کو دوسری کی زمین یا کھیتوں میں چرائے اور دوسرے کی کھیتی کو نقصان پہنچائے تو مویشیوں کے ما لکان سے جرمانے کے طور پر ایک معین رقم وصولتے ہیں، مالک کے جرمانے کو ادا نہ کرنے کی صورت میں اسی جانور کو باندھ لیتے ہیں جس نے نقصان پہچایا ہے، چنانچہ تین مالک دن کے اندر جرمانہ ادا نہ کرے تو اس کو بیچ کر جرمانہ کی رقم اس میں سے لے لیتے ہیں اور باقی دیہات کی عمومی ضرورت میں خرچ کرتے ہیں، لہٰذا حضور فرمائیں:اولاً: کیا ایسے موارد میں ایسے قوانین کا بنانا جائز ہے؟ثانیاً: جائز ہونے کی صورت میں، کیا ایک ہزار تومان جریمہ کی خاطر، مالک کے جریمہ دینے کی صورت میں اس جانور کو بیچا جاسکتا اور اس کے پورے پیسے کو گاؤں کی عمومی ضرورتوں میں خرچ کیا جاسکتا ہے؟ البتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ اگر ایسی جگہوں میں نظم اور قوانین نہ بنائیں جائیں تو پورا گاؤں حرج و مرج کا شکار، اور کمزوروں یتیموں اور بے سر پرستوں کا حق پائمال ہوجائے گا ۔

اگر ایسی جگہوں میں نظام کی حفاظت ایسے قوانین پر موقوف ہوتو پھر کوئی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ مجتہد یا ایسے شخص کی زیر نظر ہو جو اس کی طرف سے ماذون ہو اور یہ کام شریعت کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے انجام پائے ۔ اور جرمانے کے حاصل کرنے کی صورت میں، عدالت سے کام لیا جائے اور اضافی پیسے کو اس کے مالک کو پلٹا یا جائے ۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین
دسته‌ها: بیت المال

سرکاری نوکری کی عدالتی حیثیت

سرکاری نوکری کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیں؟ اس بات کے مد نظر کہ ان کی تنخواہیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہیں اور ریٹائرمینٹ کے وقت حکومت انہیں کارکردگی کے حساب سے فنڈ اور پنشن دیتی ہے؟

سرکاری نوکری طاہرا عقد اجارہ کے ضمن میں آتی ہے۔ نوکری کے دوران انجام دی جانے والی خدمات،ان کے اوقات اور تنخواہ کے عوض میں پیدا یونے والے معاملات سے اس عقد اجارہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتیں، انہیں ان دو طریقوں سے سمچھا جا سکتا ہے:الف: وکالت کے طور پر، نوکری کرنے والا خود کو نوکری کے آغاز سے مثلا تیس سال کی مدت، معین تنخواہ اور مقرر اوقات میں سرکار کو اپنی خدمات پیش کرتا ہے اور یہ عقد اجارہ (تحریر شدہ شکل میں یا عملی طور پر) دونوں فریق میں ہو جاتا ہے۔ پھر وہ حکومت اور سرکار کو اپنی مطلقہ وکالت دے دیتا ہے جس کے مطابق اگر حکومت چاہے تو مثلا پچیس سال یا اس سے کم و بیش مدت کے بعد اس قرارداد اور سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور وہ حکومت کو اس بات کی وکالت بھی دے دیتا ہے کہ وہ کام کے اوقات، تنخواہ کے تعین اور دوسری سہولتوں میں اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رد و بدل کر سکتی ہے اور جدید قرارداد اور اگریمینٹ نئے اصول و ضوابط اور ضرورتوں کے تحت تنظیم کر سکتے ہیں۔ حکومت ان معاملات میں جس طرح سے مالک کی حیثیت رکھتی ہے اسے طرح سے وکالت بھی رکھتی ہے۔ب۔ اس عرصہ میں پیش آنے والی تبدیلیوں کو شرط ضمن عقد کے تحت بھی حل کیا جا سکتا ہے، اس معنا میں کہ پہلی قرارداد میں یہ شرط ہوگی کی حکومت جب چاہے گی (قانون کے مطابق) اس سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور اسے ریٹائر یا مستعفی کر سکتی ہے۔ یا ایسا ہو سکتا ہے کہ نوکری کرنے والا یہ شرط رکھے کہ اسے تنخواہ کے علاوہ مزید پیسا دیا جائے جو قانون کے مطابق ہو۔واضح رہے کہ یہ شراءط بہت واضح نہیں یوتے مگر اس حد تک ضرور واضح ہوتے ہیں کہ ان پر عمل ہو سکے۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین

ریٹائرمینٹ کی سرکاری حیثیت

ریٹائرمینٹ کی شرعی حیثیت اور دونوں فریق کے حقوق کے بارے میں توضیح دیں؟

ریٹائرمینٹ کے مسائل کو بھی دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے:الف: پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اصل قرارداد کے ضمن میں ایک نئے عقد کا عنوان دیا جائے، جس میں عقد کی تمام شرطوں کا لحاظ کیا گیا ہو جیسے دونوں فریق بالغ ہوں، عاقل ہوں۔ ریٹارمینٹ کے مسائل کے باب میں جو ابھامات پائے جاتے ہیں جسیے یہ کہ اس عقد میں سفاہت کے حکم نہیں لگ سکتے، اس لیے کہ اس کا عقلی حکم واضح ہے اور یہ بات اس عقد کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے۔ در حقیقت یہ عقد اور قرارداد بیمہ کے عقد اور قرارداد کی طرح ہے جو ایک مستقل عقد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس آیہ کرہمہ (اوفوا بالعقود) کے ضمن میں آتا ہے۔ مذکورہ عقد میں ادا کی جانے والی کل رقم کے واضح نہ ہونے اور اس جیسے پیش آنے والے دوسرے مسائل سے اصل عقد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح سے ربا کا مسئلہ نہ ہی عقد بیمہ میں جاری ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریٹائرمینٹ کے عقد میں۔ب۔ یہ مسئلہ اپنی تمام خصوصیات اور قوانین و ضوابط کے ساتھ شرط ضمن عقد کی صورت میں قرارداد میں شامل کیا جائے گا اور اس میں جو ابھامات یا شکوک پائے جاتے ہیں وہ اس کے صحیح ہونے کی راہ میں مانع نہیں بنتے۔ جیسا کی اوپر بیان کیا گیا۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین

حکومت اسلامی کا، مقروضین کے قرضوں کو ادا کرنا

روایت معتبرہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ جس میں معصوم فرماتے ہیں: امام کے ذمّہ ہے کہ اُن مقروض کے اشخاص قرض کو ادا کرے جو ادا کرنے پر قادر نہیں ہیں“ لہٰذا حضور فرمائیں:الف) کیا حکومت اسلامی کا وظیفہ ہے کہ تنگ دست مقروض اشخاص کا قرض ادا کرے؟ب) حکومت اسلامی کا وظیفہ ہونے کے فرض میں، کیا ان قرضوں کی ادائیگی کے منابع صدقات اور زکات ہیں، یا صدقات کی کمی کی صورت میں بیت المال سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے؟ج) کیا یہ ثابت ہونا چاہیے کہ قرض، اہل وعیال یا اطاعت خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے لیا گیا تھا، نہ کہ اسراف اور گناہ ومعصیت میں خرچ کرنے کی غرض سے؟ یا یہ کہ بس اتنا ہی کافی ہے کہ معلوم نہ ہو کہ کہاں خرچ کیا ہے، اور اس کو صحت پر حمل کریں؟

الف سے ج تک: اگر حکومت اتنی توانائی رکھتی ہے کہ وہ ایسے مقروض کے قرض کو زکات سے (اگر اس کے اختیار میں ہو) ادا کردے تو اس کو ادا کرنا چاہیے اور اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ظاہراً صالح ہوں ۔

دسته‌ها: اسلامی حکومت

ولی فقیہ کی ولایت کی حدود

دور حاضر میں مہم ترین گفتگو، مطلقہ ولایت فقیہ یا غیر مطلقہ ولایت فقیہ کے بارے میں چل رہی ہے ، جنابعالی نے بھی اپنی فقہی کتابوں میں اس بحث کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ہے لفظ مطلقہ کے معنی معلوم ہونا چاہیے، بندہٴ ناچیز اس لفظ کے لئے ایک معنی عرض کررہا ہے البتہ اس بات سے قطع نظر کہ آپ ان معنی کو قبول کرتے ہیں یا نہیں (اگرچہ قبول نہ کرنے کی صورت میں بہت زیادہ شکرگزار ہونگابلکہ میری خواہش ہوگی کہ اس کی دلیل بیان فرمائیں تاکہ مزید راہنمائی ہوسکے) کیا آپ اس معنی میں ولایت فقیہ کو قبول کرتے ہیں؟آپ کو معلوم ہے کہ یہ بحث امام خمینی رحمة الله علیہ کے ذریعہ اس طرح مفصل پیش کی گئی لیکن اس سلسلہ میں مرحوم امام خمینیۺ نے بھی جو کتاب تحریر کی ہے اس میں ہمیں ”ولایت مطلقہ“ کا عنوان نظر نہیں آتا ہے، وہ چیز جو وہ مرحوم فرماتے تھے یہ تھی کہ ولی فقیہ وسعت کے اعتبار سے وہی معصومین علیہم السلام کے اختیارات کا مالک ہے، لہٰذا یہ معنی (ولایت مطلقہ، ان مرحوم کے بعد یا ان ہی کے زمانے میں لیکن دوسروں کے ذریعہ، پیش ہوئے بہرحال اس سلسلہ میں تین نظریہ پیش کئے جاسکتے ہیں:۱۔ ولایت فقیہ کو معصومین علیہم السلام کے تمام اختیارات حاصل ہیں مگر وہ اختیارات جو دلیل خاص کے ذریعہ مستثنیٰ (علیحدہ) قرار دیئے جائیں ۔۲۔ ولایت فقیہ کو معصومین علیہم السلام کے تمام اختیارات حاصل نہیں ہیں اور حکومت کے بنیادی قانون کے دائرے میں بھی نہیں ہے بلکہ یہ پوری حکومت ولی فقیہ کی حقوقی (فقہی اور صاحب تقویٰ) شخصیت کے اختیار میں ہے اور جہاں پر بھی امر ونہی اور اصلاح کرنا ضروری سمجھیں، انھیں مداخلت کرنے کا حق ہے ۔۳۔ ولایت فقیہ حکومت کے بنیادی قانون کے دائرے میں ہے ۔تیسرے نظریہ پر متعدد اشکالات ہیں؛ لیکن اب اس وقت سیاسی میدان میں پہلا اور تیسرا نظریہ رائج ہے، برائے مہربانی منظور نظر معنی اور یہ کہ ان معنی کو دلیلوں سے کیسے حاصل کیا جائے، اس سلسلہ میں وضاحت فرمائیں ۔

نظاہر وہ سب حضرات جھنوں نے ولایت فقیہ کے بارے میں بحث کی ہے، یہاں تک کہ امام خمینیۺ، ان تمام حضرات نے ولایت فقیہ کے لئے مسلمانوں کی مصلحت کی مراعات کرنے کی قید لگائی ہے، یہ کوئی نہیں کہتا: ”اگر مسلمانوں کی مصلحت جنگ میں ہے فقیہ کو صلح کرنے کا حق ہے اور اگر مسلمانوں کی مصلحت، صلح میں ہے فقیہ کو اس کے برخلاف جنگ کرنے کا حکم دینے کا حق ہے“ اصل میں یہ ولایت ، اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی حفاظت کے لئے ہے، اس کے خلاف نہیں ہے، اگر ہم اس اصل کو قبول کرلیں گے تو ولایت فقیہ کے اختیارات کی حد بھی مشخص ہوجائے گی اور مطلقہ سے مراد، وہی اسلام ومسلمین کی مصلحت کے دائرے میں مطلقہ ہے، یہاں تک کہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں بھی مسئلہ کچھ اور نہیں ہے، امام حسن علیہ السلام نے اسلام ومسلمین کی مصلحت کی خاطر صلح کی، اور امام حسین علیہ السلام نے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر جنگ کی اور شہید ہوگئے، خداوندعالم نے حضرت یونس علیہ السلام کو ترک اولیٰ جو اُمّت کی غیر ضروری مصلحتوں سے مربوط ہوتا ہے کی وجہ سے شکم ماہی میں قید کیا، اور اس سے زیادہ تفصیلی گفتگو کرنے کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے ۔

دسته‌ها: ولایت فقیه
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت