لوگوںکی اُن جائدادوں کا حکم جو ماسٹر پلان میں آگئی ہوں
مینسپلٹی نے لوگوں کے بہت سے مکانوں اور دوکانوں کو ماسٹر پلان میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے خاندان بے گھر اور بہت سی اجتماعی اور خاندانی مشکلات میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ اس طرح کہ اب ۹ افراد پر مشتمل تین خاندان سالوں سے آوارہ ہیں، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
جائز نہیں ہے کہ حکومت کسی کی جائداد کو ماسٹرپلان میں لے، اور ان کی تکلیف روشن نہ کرے ۔ اگر واقعاً حکومت کو ان کی ضرورت ہے تو ان کی حالیہ تو قیمت کو ان کے مالکان کو ادا کرے ۔ بلاتکلیف رکھنا شرعیت کے خلاف ہے ۔
لوگوں کا قانون کو جاری کرنا
اگر مثلاً ایک دور دراز کے علاقے میں اسلام کے اوامر و نواہی کامل طور سے جاری نہ ہوتے ہوں، اور بے نوا و غریبوں کے حقوق اور مالی مسائل پائمال ہوتے ہوں، اور وہاں کوئی مذہبی نظم ونسق موجود نہ ہو ، کیا ایسی جگہ پر ایک کمیٹی بنائی جاسکتی ہے تاکہ وہ کچھ قوانین و ضوابط بنا کر نظم میں خلل انداز افراد سے جرمانہ لے اور اس کو عمومی نظم میں صرف کرے اور بوقت ضرورت خلل اندازوں سے مقابلہ کرے ۔
اس طرح کے امور مجتہد جامع الشرائط کے زیر نظریا ایسے شخص کے زیر نظر انجام پانا چاہیے جو اس کی طرف سے ماٴذون ہو ۔
گاؤں والوں کا کچھ خاص قوانین بنانا
معمولاً دیہاتوں میں لوگ نظم و ضبط کی حفاظت کے لئے کچھ قوانین بنا تے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مویشیوں کو دوسری کی زمین یا کھیتوں میں چرائے اور دوسرے کی کھیتی کو نقصان پہنچائے تو مویشیوں کے ما لکان سے جرمانے کے طور پر ایک معین رقم وصولتے ہیں، مالک کے جرمانے کو ادا نہ کرنے کی صورت میں اسی جانور کو باندھ لیتے ہیں جس نے نقصان پہچایا ہے، چنانچہ تین مالک دن کے اندر جرمانہ ادا نہ کرے تو اس کو بیچ کر جرمانہ کی رقم اس میں سے لے لیتے ہیں اور باقی دیہات کی عمومی ضرورت میں خرچ کرتے ہیں، لہٰذا حضور فرمائیں:اولاً: کیا ایسے موارد میں ایسے قوانین کا بنانا جائز ہے؟ثانیاً: جائز ہونے کی صورت میں، کیا ایک ہزار تومان جریمہ کی خاطر، مالک کے جریمہ دینے کی صورت میں اس جانور کو بیچا جاسکتا اور اس کے پورے پیسے کو گاؤں کی عمومی ضرورتوں میں خرچ کیا جاسکتا ہے؟ البتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ اگر ایسی جگہوں میں نظم اور قوانین نہ بنائیں جائیں تو پورا گاؤں حرج و مرج کا شکار، اور کمزوروں یتیموں اور بے سر پرستوں کا حق پائمال ہوجائے گا ۔
اگر ایسی جگہوں میں نظام کی حفاظت ایسے قوانین پر موقوف ہوتو پھر کوئی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ مجتہد یا ایسے شخص کی زیر نظر ہو جو اس کی طرف سے ماذون ہو اور یہ کام شریعت کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے انجام پائے ۔ اور جرمانے کے حاصل کرنے کی صورت میں، عدالت سے کام لیا جائے اور اضافی پیسے کو اس کے مالک کو پلٹا یا جائے ۔
انکم ٹیکس کا زیاده آنا
میری ایک دو کاان ہے اور میرے علاوہ میرے خاندان کے دیگر افراد بھی اس میں شریک ہیں اور کام کرتے ہیں اور میں الحمداللہ بچپنے سے ہی خمس دینے کا پائند ہوں اور ہر سال وجوہات شرعی ادا کرتا ہوں ۔ انقلاب اسلامی کے بعد ہر رقم میں سے کچھ، کسی نہ کسی بھی بہانے سے نکالتا ہوں ، خمس اور دیگر وجوہات شرعیہ کے لئے تو ایک مقدار معین ہے اور ہر مسلمان پر اس کا نکالنا واجب ہے اب رہا ٹیکس تو اس کی ادائیگی ہر با شندے کا قومی وظیفہ ہے اور اس کو بھی ادا کرنا چاہیے لیکن اس سے زیادہ کا وصول کرنے پر کوئی شرعی دلیل اور شرعی حجت نہیں ہے ۔ کیا ملک کی رونق کے لئے زیادہ کام کرنے کی جزاء جریمہ کا ادا کرنا ہے؟ اگر زیادہ کام نہ کرنا چاہیے اور زیادہ محنت نہ کرنا چاہیے تو کیوں علماء کرام، معصومین علیہم السلام کے اقوال سنا کر ہماری تشویق کرتے ہیں؟
جب ملک کی مشکلات کے حل کے کے لئے ٹیکس لینا ضروری ہو تو عادلانہ صورت میں لینا چاہیے، تاکہ لوگوں کو زیادہ کام زیادہ کوشش کی ترغیب دلائیں کہ جیسا کہ سنا گیا ہے زیادہ ٹیکس کہ جسکا نا مطلوب ہونا ثابت ہے، اس کی اصلاح کے اوپر تحقیق جاری ہے ۔
رہائشی گھر کو بیچنے سے آثار قدیمہ کے محکمہ کا منع کرنا
جس گھر میں ہم ساکن ہیں، اور اس کی سند بھی معتبر ہے، یہ چھ آدمیوں کو میراث میں ملا ہے ۔ کچھ مدت پہلے آثار قدیمہ کی کمیٹی نے اس کے ایک کمرے کو آثار قدیمہ کے نام کردیا ہے اور کہا ہے:۱۔ تمہیں گھر کے توڑنے کا حق نہیں ہے ۔۲۔ گھر کے بیچنے کا بھی حق نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ مذکورہ کمرے کو نہ بیچیں ۔۳۔ اس چیز پر توجہ کرتے ہوئے کہ بعض وارثین اپنے حصّے کو بیچنے کا قصد رکھتے ہیں اور بعض، نئے طریقے سے بنانے کا، اور آثار قدیمہ کمیٹی بھی بجٹ کی کمی وجہ سے اس کو نہیں خرید سکتی ہے ، اس سلسلے میں ہماری کیا تکلیف ہے؟
اگر آثار قدیمہ کمیٹی اس کمرے کی حفاظت کی ضرورت کا احساس کررہی ہے تو اس کو اس کی عادلانہ قیمت ادا کرنا چاہیے ۔ اس صورت کے علاوہ گھر کے مالکان اپنی جائداد میں تصرف کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔
ربیع الاول کی چاند رات کو مسجد کی پشت پر اجتماع
کچھ سالوں سے بہت سی مسجدوں میں ایک چیز کا رواج بڑھتا جارہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کی خرافات ہے، داستان اس طرح ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے کی پہلی تاریخ کی رات میں، آدھی رات سے اذان صبح تک، کچھ لوگ، (جن میں اکثر خواتین ہوتی ہیں) ہاتھ میں شمع لئے ہوئے مسجد کے پیچھے جمع ہوتی ہیںاور آہستہ آہستہ مسجد کا دروازہ کھٹکھٹاتی اور دعا وٴمناجات اور کچھ اذکار پڑھتے ہوئے اپنی حاجت طلب کرتی ہیں اور تضرع وگریہ وزاری کی یہ حالت اذان صبح کے وقت اپنی پوری ترقی ہوتی ہے جو بھی اس طرح کا عمل انجام دیتی ہے تو جیسا کہ اس جلسہ میں موجود بعض خواتین سے سنا گیا ہے کہ: یہ کام ہم وغم کے دور کرنے، حاجتوں کے برآوردہ ہونے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کے دل کی تسلّی کا باعث ہوتا ہے ۔لہٰذا حضور فرمائیں:۱۔ کیا ایسے عمل کی بنیاد، کوئی روایت ہے؟۲۔ کیا ایسا عمل(کہ جو پھیلتا جارہا ہے) شائستہ اور اچھے عمل ہونے کی حیثیت سے دوسروں کے لئے پیروی کا باعث ہے ۔۳۔ اگر یہ عمل (خدانخواستہ) خرافات اور ایک طرح کی بدعت ہو تو آئمہ جماعت اور متدین مومنین کا کیا وظیفہ ہے؟
اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ عمل معصومین کی روایات میں وارد نہیں ہوا ہے تو اس کو شرعی مسحتب کی حیثیت سے انجام دینا جائز نہیں ہے اور بہتر ہے کہ آئمہ جماعت لوگوں کو اُن توسّلات اور راز ونیاز کی طرف دعوت دیں کہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں وارد ہوئے ہیں، ورنہ ممکن ہے کہ منحرف افراد مذہب کی توہین کے لئے ہر روز ایک نئی بدعت ایجاد کریں اور اچانک اس کی طرف دعوت دیں ۔
واقف کی نظر کا آثار قدیمہ کے ادارے سے ٹکراؤ
زمین کا ٹکڑا ایک معتبر اور مسلّم اسناد کے مطابق مسجد کے لئے وقف ہوا تھا، دوسری طرف سے یہ کہ مرور زمان کے ساتھ اس کے آثار کا ایک بڑا حصّہ ختم ہوچکا ہے لیکن ابھی کچھ آثار جیسے محراب وغیرہ باقی ہیں، اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ یہ جگہ مسجد کی تھی لہٰذا موقوفات کا متولی پرانی مسجد کی جگہ نئی مسجد بنانے کا قصد رکھتا ہے؛ لیکن نئی مسجد بنانا اور واقف کی نیت پر عمل کرنا آثار قدیمہ کے قوانین کے بعض قوانین سے سازگار نہیں ہے؛ واقف کی نیت کا آثار قدیمہ کے قوانین سے ٹکراؤ کی صورت میں کون مقدم ہے؟ موقوفات کے متولی کی شرعی تکلیف کیا ہے؟
جہاں تک ممکن ہو اہل خبرہ اور اہل اطلاع کی مدد کے ذریعہ مسجد کے بنانے اور آثار قدیمہ کو باقی رکھنے میں ہماہنگی کی جائے اور اگر یہ ہماہنگی ممکن نہ ہو تو اولویت مسجد کو ہے ۔
ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود
بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟
مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔
دفتر کے وقت میں پڑھنے اور مطالعہ کا حکم
دفتر کے اوقات میں فراغت اور بیکار ہونے کی صورت میں اس وقت سے پڑھائی کے لیے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
اگر اس وقت آپ کے ذمہ کوئی ذمہ داری نہ تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عوام سے ٹیکس لینے کا جواز
ٹیکس کیا ہے؟ اور کیوں لیا جاتا ہے؟ کیا اس کا دینا خمس کے لیے کافی نہیں ہے؟
ٹیکس ملک کے داخلی و خارجی معاملات، حفاظت اور امنیت کے لیے لیا جاتا ہے تا کہ عوام، ملک اور ان کے اموال کی حفاظت کی جا سکے اور ان سے سڑکیں، مدرسے، ہاسپیٹل اور ضرورت کے دوسرے کام کئے جا سکیں اور جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے ٹیکس خمس کی جگہ نہیں لے سکتے، ٹیکس کاموں کے سلسلہ میں خرچ ہونے والے دوسرے پیسوں کی طرح سے ہے۔
عقد کی صحت کو سرکاری دفتر میں ثبت سے مشروط کرنا
کیا اسلامی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ بعض نہایت اہم مصلحت کی بنیاد پر بعض عقود و ایقاعات (جیسے نکاح و طلاق) کو ملک کے سرکاری دفتر میں رجسٹرڈ یا ثبت کرانے پر مشروط کر دے یا اس کے لیے خاص مراحل طے کرنے کی شرط لگا دے؟
عقد کی صحت کے لیے اس کا دفتر میں ثبت ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ مصلحت کو دیکھتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے قانونا سزا تجویز کی جا سکتی ہے۔