سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

حق ارتفاق

الف۔ آیا موضوع حق ارتفاق جسے دنیا کی شہریت کے قانون میں ایک مستقل بحث کے طور پر ذکر اور بیان کیا گیا ہے، کیا اسلامی فقہ میں بھی یہ ایک مستقل بحث کی حیثیت رکھتا ہے؟ب۔ ایرانی مولفین اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ قانون مدنی کی اکثر مدون بحثیں خاص طور پر حق ارتفاق کی بحث فرانس کے قانون مدنی سے ماخوذ ہیں تو کیا فقہ امامیہ ایک بنیادی منبع کے طور پر قانون مدنی اور حق ارتفاق کے تدوین کے لیے کافی نہیں ہے؟

الف۔ حق ارتفاق جس کا ذکر قانون مدنی میں آیا ہے اس عنوان کے ساتھ اسلامی فقہ میں ذکر نہیں ہوا ہے البتہ اس کا محتوا اور نتیجہ عمومات و اطلاقات ادلہ عقود و شروط میں داخل ہو سکتا ہے اور بعض خاص روایات جیسے قاعدہ لا ضرر و لا ضرار کے باب میں سمرۃ بن جندب کی مشہور حدیث سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اسے رسمیت دی ہے، اس لیے کہ سمرہ ایک ایسے کجھور کے درخت کا مالک ہے جو دوسرے کی زمین میں واقع ہے اور اسے اس مرد انصار کی زمین سے گزر کر اپنے درخت تک جانے کی اجازت تھی لیکن چونکہ وہ اس حق سے غلط فایدہ اٹھانا چاہتا تھا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اس بات کی اجازت نہ دی۔ب۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، بنیادی طور پر یہ حق اسلامی ادلہ عامہ اور خاصہ میں ذکر ہوا ہے مگر اس نام اور عنوان کے ساتھ اس کا ذکر نہیں ہے لہذا ممکن ہے کہ قانون مدنی تدوین کرنے والوں نے یہ نام کہیں اور سے اخذ کیا ہو اور اس کے قانون کو اسلامی ادلہ سے اخذ کیا ہو۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین

ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود

بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟

مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: مالیات (ٹیکس)

ریٹائرمینٹ کی سرکاری حیثیت

ریٹائرمینٹ کی شرعی حیثیت اور دونوں فریق کے حقوق کے بارے میں توضیح دیں؟

ریٹائرمینٹ کے مسائل کو بھی دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے:الف: پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اصل قرارداد کے ضمن میں ایک نئے عقد کا عنوان دیا جائے، جس میں عقد کی تمام شرطوں کا لحاظ کیا گیا ہو جیسے دونوں فریق بالغ ہوں، عاقل ہوں۔ ریٹارمینٹ کے مسائل کے باب میں جو ابھامات پائے جاتے ہیں جسیے یہ کہ اس عقد میں سفاہت کے حکم نہیں لگ سکتے، اس لیے کہ اس کا عقلی حکم واضح ہے اور یہ بات اس عقد کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے۔ در حقیقت یہ عقد اور قرارداد بیمہ کے عقد اور قرارداد کی طرح ہے جو ایک مستقل عقد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس آیہ کرہمہ (اوفوا بالعقود) کے ضمن میں آتا ہے۔ مذکورہ عقد میں ادا کی جانے والی کل رقم کے واضح نہ ہونے اور اس جیسے پیش آنے والے دوسرے مسائل سے اصل عقد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح سے ربا کا مسئلہ نہ ہی عقد بیمہ میں جاری ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریٹائرمینٹ کے عقد میں۔ب۔ یہ مسئلہ اپنی تمام خصوصیات اور قوانین و ضوابط کے ساتھ شرط ضمن عقد کی صورت میں قرارداد میں شامل کیا جائے گا اور اس میں جو ابھامات یا شکوک پائے جاتے ہیں وہ اس کے صحیح ہونے کی راہ میں مانع نہیں بنتے۔ جیسا کی اوپر بیان کیا گیا۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین

سرکاری نوکری کی عدالتی حیثیت

سرکاری نوکری کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیں؟ اس بات کے مد نظر کہ ان کی تنخواہیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہیں اور ریٹائرمینٹ کے وقت حکومت انہیں کارکردگی کے حساب سے فنڈ اور پنشن دیتی ہے؟

سرکاری نوکری طاہرا عقد اجارہ کے ضمن میں آتی ہے۔ نوکری کے دوران انجام دی جانے والی خدمات،ان کے اوقات اور تنخواہ کے عوض میں پیدا یونے والے معاملات سے اس عقد اجارہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتیں، انہیں ان دو طریقوں سے سمچھا جا سکتا ہے:الف: وکالت کے طور پر، نوکری کرنے والا خود کو نوکری کے آغاز سے مثلا تیس سال کی مدت، معین تنخواہ اور مقرر اوقات میں سرکار کو اپنی خدمات پیش کرتا ہے اور یہ عقد اجارہ (تحریر شدہ شکل میں یا عملی طور پر) دونوں فریق میں ہو جاتا ہے۔ پھر وہ حکومت اور سرکار کو اپنی مطلقہ وکالت دے دیتا ہے جس کے مطابق اگر حکومت چاہے تو مثلا پچیس سال یا اس سے کم و بیش مدت کے بعد اس قرارداد اور سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور وہ حکومت کو اس بات کی وکالت بھی دے دیتا ہے کہ وہ کام کے اوقات، تنخواہ کے تعین اور دوسری سہولتوں میں اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رد و بدل کر سکتی ہے اور جدید قرارداد اور اگریمینٹ نئے اصول و ضوابط اور ضرورتوں کے تحت تنظیم کر سکتے ہیں۔ حکومت ان معاملات میں جس طرح سے مالک کی حیثیت رکھتی ہے اسے طرح سے وکالت بھی رکھتی ہے۔ب۔ اس عرصہ میں پیش آنے والی تبدیلیوں کو شرط ضمن عقد کے تحت بھی حل کیا جا سکتا ہے، اس معنا میں کہ پہلی قرارداد میں یہ شرط ہوگی کی حکومت جب چاہے گی (قانون کے مطابق) اس سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور اسے ریٹائر یا مستعفی کر سکتی ہے۔ یا ایسا ہو سکتا ہے کہ نوکری کرنے والا یہ شرط رکھے کہ اسے تنخواہ کے علاوہ مزید پیسا دیا جائے جو قانون کے مطابق ہو۔واضح رہے کہ یہ شراءط بہت واضح نہیں یوتے مگر اس حد تک ضرور واضح ہوتے ہیں کہ ان پر عمل ہو سکے۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین

گاؤں والوں کا کچھ خاص قوانین بنانا

معمولاً دیہاتوں میں لوگ نظم و ضبط کی حفاظت کے لئے کچھ قوانین بنا تے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مویشیوں کو دوسری کی زمین یا کھیتوں میں چرائے اور دوسرے کی کھیتی کو نقصان پہنچائے تو مویشیوں کے ما لکان سے جرمانے کے طور پر ایک معین رقم وصولتے ہیں، مالک کے جرمانے کو ادا نہ کرنے کی صورت میں اسی جانور کو باندھ لیتے ہیں جس نے نقصان پہچایا ہے، چنانچہ تین مالک دن کے اندر جرمانہ ادا نہ کرے تو اس کو بیچ کر جرمانہ کی رقم اس میں سے لے لیتے ہیں اور باقی دیہات کی عمومی ضرورت میں خرچ کرتے ہیں، لہٰذا حضور فرمائیں:اولاً: کیا ایسے موارد میں ایسے قوانین کا بنانا جائز ہے؟ثانیاً: جائز ہونے کی صورت میں، کیا ایک ہزار تومان جریمہ کی خاطر، مالک کے جریمہ دینے کی صورت میں اس جانور کو بیچا جاسکتا اور اس کے پورے پیسے کو گاؤں کی عمومی ضرورتوں میں خرچ کیا جاسکتا ہے؟ البتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ اگر ایسی جگہوں میں نظم اور قوانین نہ بنائیں جائیں تو پورا گاؤں حرج و مرج کا شکار، اور کمزوروں یتیموں اور بے سر پرستوں کا حق پائمال ہوجائے گا ۔

اگر ایسی جگہوں میں نظام کی حفاظت ایسے قوانین پر موقوف ہوتو پھر کوئی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ مجتہد یا ایسے شخص کی زیر نظر ہو جو اس کی طرف سے ماذون ہو اور یہ کام شریعت کے قوانین کی رعایت کرتے ہوئے انجام پائے ۔ اور جرمانے کے حاصل کرنے کی صورت میں، عدالت سے کام لیا جائے اور اضافی پیسے کو اس کے مالک کو پلٹا یا جائے ۔

دسته‌ها: حکومتی قوانین
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی