کارخانوں سے پھیلنے والی آلودگی کا ازالہ
ایسی صنعتیں جو انسانی زندگی میں آلودگی کا سبب بنیں ہیں کیسے بری الذمہ ہو سکتی ہیں؟
ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ جتنا انہوں نے آلودگی پھیلانے کی راہ میں کوشش کی تھی اتنی ہی اسے صاف اور پاک کرنے میں کوشش کریں۔
ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ جتنا انہوں نے آلودگی پھیلانے کی راہ میں کوشش کی تھی اتنی ہی اسے صاف اور پاک کرنے میں کوشش کریں۔
اگر وہ اس چیز کو اپنے اس دوست سے خرید سکتا ہو اور اسے اس کے مالک کے پاس خود یا کسی کے ذریعہ پہچوا سکتا ہو تو پہچوا دے اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو اس کی قیمت کو مالک کے اکائونٹ میں ڈال دے یا پھر اجنبی بن کر اس کے پتہ پر پوسٹ کر دے۔
ضامن ہیں۔
اس صورت میں جب اس نے اس کام کو جنایت کے محقق ہوجانے کے قصد سے کیا ہو، یا جانتا ہوکہ غالبا یہ عمل تحقق جنایت کا سبب ہوجائے گا، ہر چند کہ اس کی نیت نہ رکھتا ہو، ضامن ہے اور اپنے مسئلہ میں اس کا خون ہدر جائے گا۔
اس صورت میں جب کہ نقصان اٹھانے والا نقصان کو بڑھنے سے روک سکتا ہو اور عمداً اس کام کو نہ کرے، نقصان کا زیادہ ہونا خود اس کی ذمہ داری ہے اور وہ شخص جس نے نقصان کو ایجاد کیا ہے، نقصان کے زیادہ ہونے کے مقابل میں ضامن نہیں ہے ہمارے فقہاء نے اس مسئلہ کو کتاب قصاص میں ، اس شخص کے بارے میں جس کو کسی نے دریا میں ڈال دیا ہو اور وہ خود اپنے آپ کو نجات دے سکتا تھا لیکن اقدام نہ کرے، ذکر کیا ہے اور کہا ہے” شخص اول ضامن نہیں ہے“ اور چونکہ اس حکم کو قواعد کی بنیاد پر بیان کیا ہے لہٰذا دوسرے موارد منجملہ اموال میں سرایت دے سکتے ہیں۔
جب بھی ناقل موت کا سبب ہوا ہو تو دیت اس کے اموال سے لی جائے گی۔
۱۔۲:ہر ایک سبب جس مقدار میں بھی حادثہ کے وجود میں آنے میں موثر واقع ہو ا ہو اسی مقدار ضامن بھی ہے اور اس صورت میں جب تاثیر کی مقدار معین نہ ہوتو پہلے مورد اطمینان ماہر کی طرف رجوع کیا جائے گا، اگر پھر بھی مشخص نہ ہوسکے، خسارت کو ان کے درمیان بطور مساوی تقسیم کیا جائے گا۔
۱۔۲:ہر ایک سبب جس مقدار میں بھی حادثہ کے وجود میں آنے میں موثر واقع ہو ا ہو اسی مقدار ضامن بھی ہے اور اس صورت میں جب تاثیر کی مقدار معین نہ ہوتو پہلے مورد اطمینان ماہر کی طرف رجوع کیا جائے گا، اگر پھر بھی مشخص نہ ہوسکے، خسارت کو ان کے درمیان بطور مساوی تقسیم کیا جائے گا۔
اس مسئلہ کی دلیل یہ ہے کہ جب کھلاڑی کھیل کے میدان میں اترتے ہیں تو عملاً ایک دوسرے سے ان حادثات کی نسبت جو کھیل کی طبیعت میں پوشیدہ ہیں یہان تک کہ اگر قوانین کے مطابق بھی عمل کریں پھر بھی حوادث پیش آہی جاتے ہیں، ضمنی معافی حاصل کرلےتے ہیں، اس معافی کی طرح جس کو طبیب لفظاً یا عملًا مریض سے لیتا ہے اور یہ کام اس کی معافی کا سب ہوتا ہے۔
اگر آخر میں مغز کی موت کا انجام قطعی موت ہوجائے تو ایک دیت سے زیادہ نہیں ہے، جس کو حادثہ کے ذمہ داران اپنی غلطی کی نسبت سے ادا کریں گے۔
اگر اپنے ذاتی دفاع، یا ملک اور مسلمانوں کی عزت وآبرو کے لئے ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن کھلاڑی لوگ کھیل سے پہلے ایک دوسرے سے برائت حاصل کرلیں تاکہ ایک دوسرے کے ضامن نہ ہوں ۔
یقیناً فحشا اور فساد کے آلات کو نابود کیا جاسکتا ہے اور یہ کام ضمان کا سبب بھی نہیں ہےن لیکن لوگوں کو یہ اجازت نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے یہ کام کریں؛ کیونکہ اس صورت میں ہرج ومرج لازم آئے گا، بلکہ منصوبہ بندی اور قوانین کے تحت، اور حاکم شرع اور مربوطہ حکّام کی ریز نگرانی انجام دیا جائے ۔