سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

دوا کی حساسیت کی تعیین کا ممکن نہ ہونا۔

موجودہ دور کے مطابق جس میں کسی ایک خاص دوا کی حساسیت کا تعین کرنا ممکن نہ ہو تو کیا نقصان کی صورت میں ڈاکٹر قصور وار شمار ہوگا؟

اگر وہ دوا اپنی نوعیت مں منحصر نہ ہو اور مریض کے لیے فوری معالجہ بھی ضروری نہہو تو اس دوا کا انسان کے لیے استعمال کرنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر دوا اپنی نوعیت میں منفرد و منحصر ہو اور اس کا استعمال کرنا ضروری ہو اور فایدہ کا احتمال نقصان سے زیادہ ہو تو اسے استعمال کرنا چاہیے ۔

ڈاکٹر شرعی اعتبار سے کیسے بری ہو سکتا ہے

مندرجہ بالا مسئلہ کے مطابق کیا ڈاکٹر کو ہر مریض کے ساتھ ایسی شرط رکھنی پڑے گی اور اس سے متعلق فارم بھروانا یا اطلاعیہ لگانا ہوگا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ مراجعہ کرنے والے مریض، ان شرایط کو قبول کرتے ہیں، یا یہ کہ ایسی خبر کے شایع کرنے کے ساتھ اس بات کی اطلاع دی جائے کہ آپ کا فلاں ہاسپیٹل یا ڈاکٹر کو دکھانا یہ شرایط رکھتا ہے جس کے بعد وہ شرعی طور پر بری الذمہ ہو جائے گا؟ لیکن اگر آپریشن سے پہلے بیمار کو اس طرح کے شرایط کے ساتھ ساءن کرنا پرے جس کے مطابق آپریشن ناکام ہونے کی صورت میں ہاسپیٹل یا ڈاکٹر پر کوئی الزام نہ آئے تو کیا کسی بھی طرح کے اختلال میں ڈاکٹر یا آپریشن میں شامل گروہ ذمہ دار نہیں ہوگا؟

ڈاکٹروں کی اس مشکل کا سب سے مناسب اور معقول حل، شرعی اعتبار سے یہ ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعہ اس بات کا اعلان کر دیں کہ ہم علاج میں اپنی طرف سے پوری سعی و کوشش و دقت کرتے ہیں لیکن امکانات و وسائل کی کمی یا مریض کے جسمانی و روحانی اختلال یا احتمالی خطا جو انسانی طبیعت کا حصہ ہے جس کی وجہ سے وہ جایز الخطا ہے ، ممکن ہے کہ کوئی عارضہ لاحق ہو جائے جس کے لیے ڈاکٹر قصور وار نہیں ہوتا، اس کے پاس علاج کے لیے آنے کا مطلب ان باتوں سے بری الذمہ ہونا ہے ۔ البتہ اگر سہل انگاری کے سبب کچھ ہوتا ہے تو ڈاکٹر اس کے لیے ذمہ دار ہے ۔ اس طرح کے اعلان کو تمام ہاسپیل اور مطب میں لگا دینا چاہیے تاکہ سب کے لیے واضح رہے اور مہم اور بڑے آپریشن سے پہلے براءت والا فارم بھروا لینا چاہیے ۔

سکون پہچانے والی دوا میں دوسرے مضرات کا ہونا

اگر کچھ دوائیں جان بچانے کی بجائے فقط مریض کو مرض جسیے بخار، خارش، درد، زخم سے نجات دلانے کے لیے کھائیں جائیں اور اس بات کا یقین یا احتمال ہو کہ وہ موثر واقع ہوں گی اور اس بات کے مد نظر کہ بہت سی موثر دوائیں کم یا زیادہ مدت کے بعد عارضہ لاحق کرتی ہیں، ڈاکٹر کی انہیں تجویز کرنے یا بیماری سے زیادہ مہلک عارضہ کا سبب بننے کی صورت میں کیا ڈاکٹر اس کا ذمہ دار ہوگا؟ (قابل ذکر بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے لہذا اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، دوسری طرف اگر ہم یہ سوچیں کہ علاج سے کوئی نقصان یا عارضہ پیش نہ آئے تو ظاہر ہے کہ کسی کا علاج ممکن نہیں ہو سکے گا۔

اگر علاج سے خطرناک ضرر نہ پہچ رہا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ بہرحال دواوں کے کچھ سایڈ افیکٹس ہوتے ہیں لیکن اگر ان سے نہایت سنگین نقصان پہچ رہا ہو تو ان کا تجویز کرنا جایز نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت کے وقت وہ بھی مریض یا اس کے ولی کی اجازت کے بعد ۔

حاملہ کے لیے ہائی پاور دوا تجویز کرنا

ایسے مریض جو درد سے شدید بے چین اور پریشان رہتے ہیں لیکن اگر انہیں قوی سکون آور دوا دی جائے تو آرام ملتا ہے مگر ساتھ ہی اس بات کا قوی احتمال ہوتا ہے کہ وہ آئندہ حاملہ کو پیش آنے والے عوارض یا دوسرے عوارض کا شکار ہو سکتے ہیں تو اس طرح کے موارد میں ڈاکٹر کا کیا فریضہ بنتا ہے؟

جواب: اگر ایسا ضرر ہے، جو درد سے نجات دلانے کے لیے دی جانے والی دوا کے مقابلہ میں عقلاء کے نزدیک قابل قبول ہوتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ضرر ایسا ہو جو اس کی جان کو خطرہ میں ڈال رہا ہو تو جائز نہیں ہے اور اگر مریضہ کو ضرر نہ پہچا کر شکم میں موجود بچے کو نقصان پہچا رہی ہو تو بھی جائز نہیں ہے ۔

ڈاکٹر کا مریض سے اجازت لے کر خود کو بری کرنا

ایک نہایت اہم اور بنیادی سوال پیش آتا ہے وہ یہ کہ کلی طور پر اور علاج کی تمام تر روشوں میں ڈاکٹر کچھ بھی کرنے سے پہلے مریض یا اس کے ولی سے (اگر مریض بالغ و عاقل نہ ہو) کو بتاتا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ طریقہ علاج زیادہ کارگر واقع نہ ہو اور اس میں بیکار میں پیسا اور وقت ضایع ہو اور دوسری طرف ممکن ہے کہ اس کے کچھ سایڈ افیکٹس بھی پائے جاتے ہوں اس طرح ان مطالب کے ذکر کے ساتھ ڈاکٹر کسی بھی طرح کے معاینہ، طریقہ علاج اور دوا تجویز کرنے سے پہلے پیش آنے والے خسارہ اور لاحق پونے والے احتمالی امراض و عارضوں سے خود کو پوری طرح سے بری الذمہ کر لیتا ہے اور مریض مجبوری یا اپنے میل سے ان شرایط کو قبول کرتا ہے ، تو کیا اس صورت میں بھی ڈاکٹر ذمہ دار شمار ہوگا جبکہ اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے؟

اگر ڈاکٹر نے ان سے اجازت لے لی تھی اور خود کو ہر طرح سے بری الذمہ کر لیا تھا تو وہ کسی بھی طرح سے زمہ دار اور قصور وار نہیں ہے ۔

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی