مریض کے حمل کے بارے میں تحقیق کرنا
اس بات کہ پیش نظر کہ حمل پہلے ہفتہ میں آسانی سے پتہ نہیں چل پاتا اور اسی زمانہ میں خطرہ کا سب سے زیادہ احتمال پایا جاتا ہے جو بچے میں شدید اختلالات کے سبب پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یا تو امکانات یا وقت کی کمی یا اخراجات کے زیادہ ہونے کے سبب مریضہ اس میں دلچسبی نہیں دکھاتی یا اسے اپنے حمل کی ہی خبر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرتی ہے ، اسی وجہ سے وہ ڈاکٹر کے حمل کے بارے میں کیے گیے سوالوں کا جواب منفی دیتی ہے ، اور کبھی کبھی ٹیسٹ کی جھوٹی رہورٹ کی وجہ سے ڈاکٹر صحیح تجویز نہیں کر پاتا اور چونکہ اس کو نہیں معلوم ہوتا کہ مریضہ حاملہ ہے وہ مرض کا پتہ لگانے کے لیے مختلف دوائیں اسے دیتا ہے ، ایسی صورت میں ماں یا بچہ کو ضرر پہچنے پر ڈاکٹر ذمہ دار ہے یا نہیں؟
اگر حمل کو معلوم کرنے کا کویء اور راستہ نہ ہو اور وہ دوائیں اسی سے مخصوص ہوں اور مریضہ سے اجازت لی ہو تو ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہے ۔
دوا کا تاثیر کے احتمال کی وجہ سے تجویز کرنا
اگر موثر دوائیں کسی وجہ سے میسر نہ ہوں تو کیا ڈاکٹر جس دوا کے موثر ہونے کا احتمال دیتا ہے اسے تجویز کر سکتا ہے؟ اس میں ناکام ہونے کی صورت میں کیا ڈاکتر ذمہ دار ہوگا اور خرچ ہونے والا پیسا اس کی گردن پر ہوگا؟
اگر علاج انہیں دواوں پر منحصر تھا تو انہیں تجویز کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ البتہ مریض کو ساری باتیں بتا دینی چاہیے اور اس کی رضایت حاصل کر لینی چاہیے ۔
مرض کے متعین نہ ہونے کے امکان کی وجہ سے مریض کا مرنا
اگر پوری طرح سے چیک اپ کرنے کا امکان نہ ہو اور علاج ممکن نہ ہو سکے اور مریض کا مرض بڑھ جائے یا اس کی موت ہو جائے تو کیا علاج کرنے والا ڈاکٹر قصور وار شمار ہوگا؟
ڈاکتر ذمہ دار نہیں ہے البتہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ مریض کو مشکوک یا مضر دوا نہ دے ۔
ڈاکٹر کا بعد میں پیش آنے والے ناقص حمل کی خبر دینا
اگر ڈاکٹر قطعی طور پر یہ کہ دے کہ آپ کے آئندہ بچے ناقص الخلقت ہوں گے تو مندرجہ ذیل سوالوں کا حکم کیا ہوگا:الف: کیا ڈاکٹر پر واجب ہے کہ وہ والدین کے سوال کرنے پر انہیں پوری اطلاع فراہم کرے؟ب: اگر وہ سوال نہ کریں تو کیا تب بھی ڈاکٹر کے لیے انہیں بتانا واجب ہے تاکہ وہ پرہیز کر سکیں اور اگر اس پر واجب نہیں ہے تو کیا اس کے لیے بتانا حرام ہے؟ج: اگر ڈاکٹر کو یقین ہو کہ وہ بتانے کی صورت میں ہر بار بچہ سقط کرا دیں گے تو یہاں پر اس کا کیا شرعی فریضہ ہے؟
جواب: الف۔ ڈاکٹر کے لیے بتانا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ نہ بتانے سے مریض کو کوئی بہت بڑا نقصان پہچ سکتا ہو۔ب: اس طرح کے موارد میں اگر مسئلہ نہایت اہم ہو تو ڈاکٹر کو چھپانا نہیں چاہیے ۔ج: ڈاکٹر کو اپنے شرعی فریضے پر عمل کرنا چاہیے اور اگر مریض خلاف ورزی کر رہا ہے تو ڈاکٹر ذمہ دار نہیں ہے ۔ البتہ ڈاکٹر اپنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل کرے گا ۔
سکون پہچانے والی دوا میں دوسرے مضرات کا ہونا
اگر کچھ دوائیں جان بچانے کی بجائے فقط مریض کو مرض جسیے بخار، خارش، درد، زخم سے نجات دلانے کے لیے کھائیں جائیں اور اس بات کا یقین یا احتمال ہو کہ وہ موثر واقع ہوں گی اور اس بات کے مد نظر کہ بہت سی موثر دوائیں کم یا زیادہ مدت کے بعد عارضہ لاحق کرتی ہیں، ڈاکٹر کی انہیں تجویز کرنے یا بیماری سے زیادہ مہلک عارضہ کا سبب بننے کی صورت میں کیا ڈاکٹر اس کا ذمہ دار ہوگا؟ (قابل ذکر بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا ہے لہذا اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، دوسری طرف اگر ہم یہ سوچیں کہ علاج سے کوئی نقصان یا عارضہ پیش نہ آئے تو ظاہر ہے کہ کسی کا علاج ممکن نہیں ہو سکے گا۔
اگر علاج سے خطرناک ضرر نہ پہچ رہا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ بہرحال دواوں کے کچھ سایڈ افیکٹس ہوتے ہیں لیکن اگر ان سے نہایت سنگین نقصان پہچ رہا ہو تو ان کا تجویز کرنا جایز نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت کے وقت وہ بھی مریض یا اس کے ولی کی اجازت کے بعد ۔
ڈاکٹر کا دیت سے بری ہو جانا
ایسی صورت جس میں داکٹر کے لیے سقط کرنا ضروری ہو، دیت کس کے ذمہ واجب ہوگی؟ کیا ڈاکٹر کے لیے پہلے سے شرط کر دینا ضروری ہے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور کیا یہ شرط اس کے بری الذمہ ہونے کے لیے کافی ہے یا وہ اس کی گردن پر باقی رہے گی؟
جواب: احتیاط یہ ہے کہ ڈاکٹر مریض یا اس کے اولیاء سے یہ شرط کر دے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور اگر اس نے یہ شرط نہیں کی تو دیت اسے ہی ادا کرنا پڑے گی۔ (احتیاط کی بناء پر)
حاملہ کے لیے ہائی پاور دوا تجویز کرنا
ایسے مریض جو درد سے شدید بے چین اور پریشان رہتے ہیں لیکن اگر انہیں قوی سکون آور دوا دی جائے تو آرام ملتا ہے مگر ساتھ ہی اس بات کا قوی احتمال ہوتا ہے کہ وہ آئندہ حاملہ کو پیش آنے والے عوارض یا دوسرے عوارض کا شکار ہو سکتے ہیں تو اس طرح کے موارد میں ڈاکٹر کا کیا فریضہ بنتا ہے؟
جواب: اگر ایسا ضرر ہے، جو درد سے نجات دلانے کے لیے دی جانے والی دوا کے مقابلہ میں عقلاء کے نزدیک قابل قبول ہوتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ضرر ایسا ہو جو اس کی جان کو خطرہ میں ڈال رہا ہو تو جائز نہیں ہے اور اگر مریضہ کو ضرر نہ پہچا کر شکم میں موجود بچے کو نقصان پہچا رہی ہو تو بھی جائز نہیں ہے ۔
ایسے بیمار کی دیت جو طبیب کی تساہلی کی وجہ سے فو ت مغزی کا سبب ہوجائے
ایک جوان خاتون جو حاملہ تھی، معالج ڈاکٹر کی تشخیص کے مطابق وضع حمل آپریشن کے ذریعہ کیا گیا، افسوس کہ آپریشن کے بعد یہ خاتون مشکل میں گرفتار ہوگئی، قانونی ڈاکٹر کی تشخیص کے مطابق حال حاضرذ میں یہ خاتون مغز ی نقصان کی وجہ سے اپنے ہوش وہواس کھوبیٹھتی ہے کہ جس کی بازگشت بھی ممکن نہیں ہے، دل کے بیدار رہنے کی وجہ سے یہ مریضہ ایک نباتی زندگی گزار رہی ہے، اس کو اپنے اطراف کا کوئی علم نہیں ہے، تمام حسّی قوتیں کھوبیٹھتی ہے جیسے دیکھنے، سننے، بولنے، سونگھنے وغیرہ کی قوتیں، متعلقہ مرض کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے حادثہ کی وجہ، اسپتال میں ضروری امکانات کا نہ ہونا بتائی ہے اور اس حادثہ کا ذمہ دار بے ہوشی کے ڈاکٹر اور ہوش میں آنے پر تعینات نرس اور اسپتال کے عملہ کو ٹھہرایا ہے، اس وقت ۴/ سال اور چار مہینے ہوگئے ہیں اور مریضہ اسی حالت میں ہے اور ممکن ہے ابھی کئی سال اسی حالت میں رہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہر ایک اعضا اور منافع کی علیحدہ دیت ادا کی جائے گی؟
اگر آخر میں مغز کی موت کا انجام قطعی موت ہوجائے تو ایک دیت سے زیادہ نہیں ہے، جس کو حادثہ کے ذمہ داران اپنی غلطی کی نسبت سے ادا کریں گے۔
ماں کے مہم آپریشن کے لیے حمل کا سقط کرنا
ایک خاتون جو آنکھ کی بیماری میں مبتلا ہے، ماہر ڈاکٹروں کے مطابق اسے جلد سے جلد آپریشن کرانا چاہیے، مگر اس کے پیٹ میں تین ماہ کا حمل ہے جس کا سقط کرانا آپریشن کے لیے ضروری ہے ورنہ وہ ہمیشہ کے لیے اندھی ہو جائے گی اور اسی طرح سے سقط نہ ہونے کی صورت میں حمل کو بھی نہایت ضرر ہو سکتا ہے تو کیا ایسی حالت میں سقط کرانا جائز ہے؟
جواب: مسئلہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ظاہرا سقط کرانے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔
ڈاکٹر کا مریض سے اجازت لے کر خود کو بری کرنا
ایک نہایت اہم اور بنیادی سوال پیش آتا ہے وہ یہ کہ کلی طور پر اور علاج کی تمام تر روشوں میں ڈاکٹر کچھ بھی کرنے سے پہلے مریض یا اس کے ولی سے (اگر مریض بالغ و عاقل نہ ہو) کو بتاتا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ طریقہ علاج زیادہ کارگر واقع نہ ہو اور اس میں بیکار میں پیسا اور وقت ضایع ہو اور دوسری طرف ممکن ہے کہ اس کے کچھ سایڈ افیکٹس بھی پائے جاتے ہوں اس طرح ان مطالب کے ذکر کے ساتھ ڈاکٹر کسی بھی طرح کے معاینہ، طریقہ علاج اور دوا تجویز کرنے سے پہلے پیش آنے والے خسارہ اور لاحق پونے والے احتمالی امراض و عارضوں سے خود کو پوری طرح سے بری الذمہ کر لیتا ہے اور مریض مجبوری یا اپنے میل سے ان شرایط کو قبول کرتا ہے ، تو کیا اس صورت میں بھی ڈاکٹر ذمہ دار شمار ہوگا جبکہ اس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے؟
اگر ڈاکٹر نے ان سے اجازت لے لی تھی اور خود کو ہر طرح سے بری الذمہ کر لیا تھا تو وہ کسی بھی طرح سے زمہ دار اور قصور وار نہیں ہے ۔
ایک بیماری کے لیے مختلف علاج کا آزمانا
بعض امراض کے علاج میں جیسے بلڈ پریشر ہائی ہونا وغیرہ ان کی علت کے معلوم نہ ہونے کی بناء پر ، موجودہ دور میں رایج روش کے مطابق، جن کا اجرا کرنا ضروری ہے ، جس میں ایک یا چند دوا دی جاتی ہے اور فایدہ نہ ہونے کی صورت میں ان کی جگہ دوسری دوا دی جاتی ہے ۔ اس بات کہ مد نظر کہ یہ دوائین تمام افراد کے لیے موثر نہیں ہوتیں اور ممکن ہے کہ بعض افراد میں معمولی علاج موثر واقع ہو اور بعض میں دوسرا علاج، اور ان سے لاحق ہونے والے عارضے بھی مخصوص ہیں تو کیا ایسا کرنے والا ڈاکٹر جو مختلف دوا کو مریض پر آزماتا ہے ، خرچ ہونے والے پیسوں اور ان سے لاحق ہونے والے عارضوں کا ذمہ دار ہے؟
اگر علاج اسی پر منحصر ہو تو ڈاکٹر ایسا کر سکتا ہے اور اس کے اوپر کوئی ذمہ داری عاءد نہیں ہوتی ۔