سروس چارج کی کوقرض کی اصلی رقم سے کم کرلینا
کیا سروس چارج کو اصل قرض سے لیا جاسکتا ہے اور باقی ماندہ قرض کو ادا کردیں؟
جواب: کوئی اشکال نہیں ہے؛ بشرطیکہ قرض الحسنہ سوسائٹی کے خرچ سے زیادہ نہ ہو۔
جواب: کوئی اشکال نہیں ہے؛ بشرطیکہ قرض الحسنہ سوسائٹی کے خرچ سے زیادہ نہ ہو۔
جواب: جنسیت کا تغییر دینا اگر صوری اور ظاہری ہو تو جائز نہیں ہے لیکن اگر واقعی ہو (جیسا کہ عام طور پر بعض افراد میں دو جنس پائی جاتی ہے) تو وہاں پر علاج اور واقعی جنسیت کو ظاہر کرنے کے لیے کبھی ایسا کرنا جائز اور کبھی واجب ہے ۔
جواب:۔ اگر اِس کام کو ترک کرنے سے، فساداورمہم اختلافات کا گمان ہو تو جائز ہے، اس صورت میں حتی الامکان لیڈی ڈاکٹر سے اگر ممکن ہو تو دیکھے بغیر دستانوں وغیرہ کے ذریعہ، غیر مستقیم طور پر یہ کام انجام پائے .
جواب:۔اس مورد میں کہ جس میں ضرورت نہیں ہے، اسی طرح حکم کی تعمیل سے، معقول طریقہ سے، انکار کرنا چاہیےٴ مگر یہ کہ عورتوں کا معائنہ کرنا ڈاکٹری کی تکمیل کیلئے لازم ہو( ایسی تعلیم جو خواتین کی جان بچانے کا باعث ہوتی ہے) کہ اس صورت میں جائز ہے .
جواب:۔جو امور معاشرے کیلئے ضروری ہیں ان میں جائز ہے -.
جواب: اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کسی متدیَّن طبیب کی تشخیص کے مطابق اس کے علاوہ کوئی اور علاج کی صورت نہ ہو ۔
جواب: اگر اس کی روانی بیماری اور آپریشن کے بعد اس کے صحیح ہو جانے کا احتمال اس حد تک ہو کہ عقلاء آپریشن کو منطقی و معقول قرار دیں تو آپریشن کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں اس کے ضمن میں مریض (اگر وہ ان حالات کو سمجھ سکتا ہو) یا اس کے ولی (اگر مریض حالات کو درک نہ کر سکتا ہو) سے اجازت لینا ضروری ہے ۔
جواب: پہلی اور دوسری صورت میں، اس بات کے پیش نظر کہ دونوں کی حالت ایک جیسی ہے ڈاکٹر کو اختیار ہے جس کا چاہے علاج کرے لیکن اگر اس کا کسی گھرانے سے شرعی معاہدہ ہو تو اسے مقدم کرے گا اور تیسری صورت میں جس کی جان کو زیادہ خطرہ ہو اس کا پہلے علاج کرے گا ۔
جواب: انسان کا قتل کسی بھی بہانہ سے جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ ترس کھا کر اور ہمدردی میں بھی نہیں، اور اگر مریض خود بھی ایسا کرنے کو کہے تب بھی نہیں، اسی طرح سے اس کا معالجہ ترک کد دینا تا کہ وہ جلدی مر جائے، جایز نہیں ہے ۔ اس مسئلہ کی دلیل آیات و روایات میں قتل کا حرام ہونا مطلقا بیان ہونا ہے اور اسی طرح ان دلائل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے جن میں جان کا بچانا واجب قرار دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا فلسفہ یہ ہو کہ اس بات کی اجازت دینا بہت سے سوء استفادہ کا سبب بن جائے گا اور اس طرح کے بے تکے اور بے بنیاد بہانوں کے تحت ترس اور ہمدردی میں قتل ہونے لگیں گے یا بہت سے افراد اس قصد سے خودکشی کی راہ اختیار کرنے لگیں گے ۔ ویسے بھی طبی مسائل غالبا یقین آور نہیں ہیں اور بہت سے افراد جن کی زندگی سے مایوسی ہو چکی ہے، عجیب و غریب طریقہ سے موت کا شکار ہونے لگ جائیں۔
جواب: اس بات کے پیش نظر کہ ڈاکٹر حضرات اس بات کی وضاحت و صراحت کرتے ہیں کہ برین ھیمریج کے مریض ان افراد کی طرح ہیں جن کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو، جن کے دماغ بکھر چکے ہوں یا جن کے سر تن سے جدا کر دئے گئے ہوں اور جو مشینوں اور طبی وسائل کے ذریعہ کچھ دن زندہ رکھے جا سکتے ہیں مگر ان کا شمار ایک زندہ انسان کی طرح سے نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ وہ مردوں کی طرح بھی نہیں ہیں۔ لہذا ان کے احکام ایسے ہیں جو زندہ اور مردہ دونوں کے ہوتے ہیں جیسے احکام مس میت، غسل و نماز میت و کفن و دفن ان پر جاری نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ ان کے قلب کی حرکت بند اور بدن ٹھنڈا ہو جائے، ان کے اموال کو ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کی عورتیں وفات کے عدہ میں نہیں بیٹھیں گی، یہاں تک کہ جان اور روح ان کی بدن سے جدا ہو جائے، لیکن ان وکیلوں کی وکالت ساقط ہو جائے گی اور ان کا اعتبار ختم ہو جائے گا اور انہیں ان کی طرف یا ان کی وکالت میں خرید و فروش، ان کی کسی سے شادی اور بیویوں سے طلاق کا حق نہیں ہوگا، ان کے علاج کا جاری رکھنا واجب نہیں ہے، ان کے بعض اعضاء بدن کا نکالنا، اس صورت میں کہ اس سے کسی مسلمان کی جان اس سے بچ سکتی ہو، کوئی حرج نہیں رکھتا ہے، البتہ قابل توجہ نکتہ ہے کہ یہ سب اس صورت میں ہے جب مغزی موت پوری طرح سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہو اور زندہ بچ جانے کا بالکل بھی احتمال نہ پایا جاتا ہو۔
جواب: ان موارد میں سقط کرانا اشکال سے خالی نہیں ہے، خاص طور پر اس وقت جب مذکورہ بالا پیش بینیاں قطعی نہ ہوں۔
جواب: اگر بچے کے ناقص الخلقت (معیوب) ہونے کا یقین ہو اور حمل ابتدائی مراحل میں ہو اور اس نے انسانی صورت اختیار نہ کی ہو، مزید علاج اس راہ پر منحصر ہو تو ایسا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
جواب: اسے دونوں میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار ہے ۔
ڈاکٹروں کا وظیفہ یہ ہے کہ ایسے کیس میں دخالت نہ کریں اور اسے خود سے بڑے اور ماہر ڈاکٹر کی طرف ریفر کر دیں۔
ایسی صورت اور اس طرح کے معالجہ میں وجوب و جواز پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے لیکن اگر خود مریض تمام باتوں کو جاننے کے با وجود اس کے لیے راضی ہو جائے تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔