سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

دو جنس رکھنے والے افراد کا جنس تغییر کرانا

ایک لڑکی بچپن سے لڑکوں کا لباس پہنتی تھی اب جبکہ وہ بڑی ہو گئی ہے خود کو لڑکا سمجھتی ہے اور کچھ دواوں کے استعمال سے اس میں مردانہ حالتیں پیدا ہو گئی ہیں اور اس نے ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنی جنس بدلنے کی خواہش ظاہر کی ہے، کیا ڈاکٹر کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: جنسیت کا تغییر دینا اگر صوری اور ظاہری ہو تو جائز نہیں ہے لیکن اگر واقعی ہو (جیسا کہ عام طور پر بعض افراد میں دو جنس پائی جاتی ہے) تو وہاں پر علاج اور واقعی جنسیت کو ظاہر کرنے کے لیے کبھی ایسا کرنا جائز اور کبھی واجب ہے ۔

دلہن کے باکرہ ہونے کا معائنہ کرنا

اگر احتیاط کے طور پر، دُلہن اپنے باکرہ ہونے کی جستجو کیلئے لیڈی ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر کے نہ ہونے کی صورت میں، مرد ڈاکٹر کے پاس جائے، ملحوظ رکھتے ہوئے کہ لمس لازمی ہے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب:۔ اگر اِس کام کو ترک کرنے سے، فساداورمہم اختلافات کا گمان ہو تو جائز ہے، اس صورت میں حتی الامکان لیڈی ڈاکٹر سے اگر ممکن ہو تو دیکھے بغیر دستانوں وغیرہ کے ذریعہ، غیر مستقیم طور پر یہ کام انجام پائے .

اقسام: معاینه

نامحرم کے معائنہ کےلئے استاد کے حکم کی تعمیل

ایسے استاد کے حکم کی تعمیل کرنے کا کیا حکم ہے ؟ جو شریعت کے ضروری احکام کا پابند نہیں ہے اور طالبات کے ہوتے ہوئے، طالب علم لڑکوں کو بیمار عورتوں کے معائنہ کا حکم دیتا ہے، البتہ استاد کے دستور کی تعمیل نہ کرنے کا، ممکن ہے، اس طالب علم کے امتحان میں پاس ہونے کے نمبروں میں یا فیل ہونے میں، دخل ہو ؟

جواب:۔اس مورد میں کہ جس میں ضرورت نہیں ہے، اسی طرح حکم کی تعمیل سے، معقول طریقہ سے، انکار کرنا چاہیےٴ مگر یہ کہ عورتوں کا معائنہ کرنا ڈاکٹری کی تکمیل کیلئے لازم ہو( ایسی تعلیم جو خواتین کی جان بچانے کا باعث ہوتی ہے) کہ اس صورت میں جائز ہے .

اقسام: معاینه

مریض کے مفلوج ہو جانے کے احتمال کے باوجود آپریشن کرنا

ایسا مریض، جو شدید روانی اور عصبی بیماریوں کا شکار ہو، اور ڈاکٹر کے پاس معاینہ کے لیے جاتا ہے تو ڈاکٹر بھی اس کے علاج کو آپریشن پر منحصر قرار دیتا ہے ۔ اور آپریشن میں اس بات کا بھی احتمال ہو کہ وہ ہمیشہ کے لیے ذہنی توازن کھو دے اور مفلوج ہو جائے تو کیا ایسے حالات میں ڈاکٹر آپریشن کر سکتا ہے؟

جواب: اگر اس کی روانی بیماری اور آپریشن کے بعد اس کے صحیح ہو جانے کا احتمال اس حد تک ہو کہ عقلاء آپریشن کو منطقی و معقول قرار دیں تو آپریشن کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں اس کے ضمن میں مریض (اگر وہ ان حالات کو سمجھ سکتا ہو) یا اس کے ولی (اگر مریض حالات کو درک نہ کر سکتا ہو) سے اجازت لینا ضروری ہے ۔

دو مریضوں کی صورت میں ڈاکٹر کا شرعی وظیفہ

اگر دو زخمیوں کو ڈاکٹر کے پاس معالجہ کے لیے لایا جائے اور دونوں کی حالت نازک اور خطرناک ہو اور ان دونوں میں سے ایک کا وہ فیملی ڈاکٹر ہو اور ایک کا علاج دوسرے کو چھوڑ دینے کے مترادف ہو، جس کے نتیجہ میں وہ مر جائے گا، اس حالت میں ڈاکٹر کا کیا شرعی فریضہ ہے وہ ان دونوں میں سے کس کو مقدم کرے اور کس کا علاج کرے، اس بیان کے ضمن میں ذیل الذکر سوالوں کے جواب عنایت کریں:الف۔ اس بات کے مد نظر کہ اس ڈاکٹر نے جن کا وہ فیملی ڈاکٹر ان سے اس نے ایسا کوئی ایگریمینٹ نہ کیا ہو جس کے تحت وہ علاج کے مجبور ہوگا ۔ب۔ اگر ان دونوں میں سے ایک کے گھرانے کے ساتھ اس کا ایگریمینٹ ہو تو اس صورت میں حکم مسئلہ کیا ہوگا؟ج۔ وہ زخمی ڈاکٹر جن کا فیملی ڈاکٹر ہے، اس کی حالت نہایت نازک ہو مگر اس کی موت کا امکان دوسرے سے کمتر ہو تو اس صورت میں اس کا شرعی فریضہ کیا ہے؟

جواب: پہلی اور دوسری صورت میں، اس بات کے پیش نظر کہ دونوں کی حالت ایک جیسی ہے ڈاکٹر کو اختیار ہے جس کا چاہے علاج کرے لیکن اگر اس کا کسی گھرانے سے شرعی معاہدہ ہو تو اسے مقدم کرے گا اور تیسری صورت میں جس کی جان کو زیادہ خطرہ ہو اس کا پہلے علاج کرے گا ۔

کینسر کے مریضوں کا علاج ترک کرنا

ایک شخص کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہے، ڈاکٹر نا امید ہو چکے ہیں، اب اگر کوئی ڈاکٹر اس پر ترس کھا کر ہمدردی دکھاتے ہوئے اس کا علاج نہ کرے تا کہ وہ جلدی مر جائے اور مرض کی صعوبت سے نجات پا جائے اور مریض قبل از وقت مر جائے تو وہ ڈاکٹر شرعی لحاظ سے مجرم ہے؟ مہربانی کر کے اجمالی طور پر دلیل بھی بیان فرمائیں؟

جواب: انسان کا قتل کسی بھی بہانہ سے جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ ترس کھا کر اور ہمدردی میں بھی نہیں، اور اگر مریض خود بھی ایسا کرنے کو کہے تب بھی نہیں، اسی طرح سے اس کا معالجہ ترک کد دینا تا کہ وہ جلدی مر جائے، جایز نہیں ہے ۔ اس مسئلہ کی دلیل آیات و روایات میں قتل کا حرام ہونا مطلقا بیان ہونا ہے اور اسی طرح ان دلائل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے جن میں جان کا بچانا واجب قرار دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا فلسفہ یہ ہو کہ اس بات کی اجازت دینا بہت سے سوء استفادہ کا سبب بن جائے گا اور اس طرح کے بے تکے اور بے بنیاد بہانوں کے تحت ترس اور ہمدردی میں قتل ہونے لگیں گے یا بہت سے افراد اس قصد سے خودکشی کی راہ اختیار کرنے لگیں گے ۔ ویسے بھی طبی مسائل غالبا یقین آور نہیں ہیں اور بہت سے افراد جن کی زندگی سے مایوسی ہو چکی ہے، عجیب و غریب طریقہ سے موت کا شکار ہونے لگ جائیں۔

مغزی موت سے متعلق شرعی احکام

برین ھیمریج کے بارے میں بارہا متعدد سوال کر چکا ہوں اور آپ نے جواب عنایت کیا ہے، اگر اجازت دیں تو اسے مفصل آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، برین ھیمریج سے ہونے والی موت میں دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور صرف اس کے اعضاء رئیسہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس سے وہ زندہ تو ہوتا ہے مگر ایسے انسان کا عام زندگی کی طرف لوٹ آنا ممکن نہیں ہوتا، اس کے ضمن میں اس مریض کی طرف سے پیش آنے والے مخلتف قانونی و مالی احکام و مسائل کے بارے مہربانی کرکے مختصر و مفید جواب عنایت فرمائیں؟

جواب: اس بات کے پیش نظر کہ ڈاکٹر حضرات اس بات کی وضاحت و صراحت کرتے ہیں کہ برین ھیمریج کے مریض ان افراد کی طرح ہیں جن کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو، جن کے دماغ بکھر چکے ہوں یا جن کے سر تن سے جدا کر دئے گئے ہوں اور جو مشینوں اور طبی وسائل کے ذریعہ کچھ دن زندہ رکھے جا سکتے ہیں مگر ان کا شمار ایک زندہ انسان کی طرح سے نہیں کیا جا سکتا ۔ البتہ وہ مردوں کی طرح بھی نہیں ہیں۔ لہذا ان کے احکام ایسے ہیں جو زندہ اور مردہ دونوں کے ہوتے ہیں جیسے احکام مس میت، غسل و نماز میت و کفن و دفن ان پر جاری نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ ان کے قلب کی حرکت بند اور بدن ٹھنڈا ہو جائے، ان کے اموال کو ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کی عورتیں وفات کے عدہ میں نہیں بیٹھیں گی، یہاں تک کہ جان اور روح ان کی بدن سے جدا ہو جائے، لیکن ان وکیلوں کی وکالت ساقط ہو جائے گی اور ان کا اعتبار ختم ہو جائے گا اور انہیں ان کی طرف یا ان کی وکالت میں خرید و فروش، ان کی کسی سے شادی اور بیویوں سے طلاق کا حق نہیں ہوگا، ان کے علاج کا جاری رکھنا واجب نہیں ہے، ان کے بعض اعضاء بدن کا نکالنا، اس صورت میں کہ اس سے کسی مسلمان کی جان اس سے بچ سکتی ہو، کوئی حرج نہیں رکھتا ہے، البتہ قابل توجہ نکتہ ہے کہ یہ سب اس صورت میں ہے جب مغزی موت پوری طرح سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہو اور زندہ بچ جانے کا بالکل بھی احتمال نہ پایا جاتا ہو۔

دوا سے علاج کی خاطر حمل کا سقط کرنا

ایک حاملہ عورت جو رحم کے کینسر کی مریضہ ہے، جس کا معالجہ شعاعوں کے ذریعہ ہوتا ہے جو بچے کے ناقص الخلقت (عیب دار) ہونے کا باعث بن سکتا ہے تو کیا ایسی حالت میں اس کے لیے بچہ کو سقط کرانا جائز ہے؟

جواب: اگر بچے کے ناقص الخلقت (معیوب) ہونے کا یقین ہو اور حمل ابتدائی مراحل میں ہو اور اس نے انسانی صورت اختیار نہ کی ہو، مزید علاج اس راہ پر منحصر ہو تو ایسا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت