سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف

کافر کی قسمیں

کافر کی رائج تقسیم، کافر حربی اور کافر ذمّی، جس میں کافر غیر ذمّی کو حربی جانتے ہیں، کے مطابق، کیا اس پر ذمّی کے تمام احکام جاری کئے جاسکتے ہیں تاکہ جو کفار اسلامی جمہوریہ ایران میں رہتے ہیں وہ کافر ذمّی اور باقی کفّار خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہوں، کافر حربی سمجھے جائیں، اور کافر حربی سے مخصوص تمام اقدامات، ان کے بارے میں کیا جانا جائز ہوجائے یا نہیں بلکہ کافر حربی مخصوص ہے اس حالت سے جب وہ جنگ کی حالت میں ہوں اور حالت جنگ کے علاوہ، کفار کی تیسری قسم ہوتی ہے جو نہ ذمّی ہوتے ہیں اور نہ حربی، نیز کیا ان کفار کی جان، مال اور عزّت وآبرو محترم ہے جو حالت جنگ میں نہیں ہیں؟

کافر کی تیسری اور چوتھی قسم بھی ہے، اس کی تیسری قسم ”کافر معاہد“ ہے، دور حاضر کے وہ بہت سے ممالک ، جن سے ہمارے سیاسی تعلقات ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، اس (تیسری قسم) کا مصداق شمار ہوتے ہیں اور جب تک کسی طرح سے بھی وہ ممالک، مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں داخل نہ ہوں، اُن کی تمام چیزیں، جان اور ان کا مال، محترم ہے، اس لئے کہ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کے قوانین کے اعتبا رسے ان کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات ہوگئے ہیں، اس وجہ سے وہ سب، تیسری قسم یعنی ”کافر معاہد“ کے دائرے میں شمار ہوں گے، نیز توجہ رہے کہ کافر معاہد کا وقت محدود نہیں ہوتا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، ہماری نظر میں ایسا نہیں ہے اور کافر معاہد ، اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں کافروں کو شامل ہے (یعنی کافر کی تیسری قسم (کافر معاہد) میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں) اور قابل توجہ یہ بات بھی ہے کہ اہل کتاب کو اس وقت کافر ذمّی کا عنوان دیا جائے گا جب وہ اسلامی ممالک کے اندر زندگی بسر کرتے ہوں، لہٰذا جو اہل کتاب کفار اپنے اپنے ممالک میں رہتے ہیں وہ فقط ”کافر معاہد“ ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں کافر ذمّی کے معاہدہ کا کوئی مطلب نہیں ہے (مگر یہ کہ کوئی کافر نشین ملک خود کو اسلامی ممالک کی پناہ میں دیدے) اس لئے کہ کافر ذمّی کے احکام میں بہت سے ایسے قرینہ موجود ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ احکام، اسلامی ممالک کے اندر رہنے والے، اقلّیتی مذہب والوں سے متعلق ہیں ۔چوتھی قسم، وہ کفار ہیں جو نہ کفار ذمّی کا حصّہ ہیں نہ کافر معاہد اور نہ کفار حربی میں شامل ہیں، حقیقت میں وہ مسلمانوں کے لحاظ سے بالکل بے طرف اور غیرجانبدار ہیں، ان کو غیر حانبدار کا نام دیا جاسکتا ہے، قرآن مجید کی دو آیتوں میں ان کی وضعیت اور صورتحال کی طرف اشارہ ہوا ہے ، سورہٴ ممتحنہ کی آیت ۸ میں ارشاد ہوتا ہے: اور سورہٴ نساء کی آیت ۹۰ میں کفار کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: لہٰذا اس بناپر ”القای سلم“ سے مراد، مسالمت آمیز راستہ ہے، معاہدہ صلح نہیں، اس لئے کہ القای سلم کی عبارت، ان ہی معنی سے مناسب ہے اور بعد کی آیت بھی اسی آیت پر شاہد ہے، بہرحال غیرجانبدار کافر کی جان، مال، عزّت آبرو بھی محترم اور محفوظ ہے، اور کفار کی چار قسموں کے متعلق اس سے زیادہ وضاحت کرنے کے لئے، نسبتاً تفصیلی بحث کی ضرورت ہے (جس کا یہاں پر موقع نہیں ہے

اقسام: کافر

مشکوک مقامات کیلئے نذر کرنا

بعض لوگ مشکوک مقامات کے لئے نذر کرتے ہیں(جیسے وہ قدم گاہیں جو امیر المومنین(علیہ السلام) سے منسوب ہیں)اس کے بعد اس کو اسی مقام پر خیرات میں خرچ کر تے ہیں کیا یہ کام جائز ہے؟

جواب:مذکورہ مصرفوں میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن لوگوں کو توجہ رکھنا چاہیئے کہ ان نذروں کو ، امیر المومنین(علیہ السلام) کی خدمت اقدس میں ، اظہار عقیدت کے عنوان سے دیں ،ا ور یہ کہ وہ مقام ان سے منصوب ہے ، نہ یہ کہ وہ مقام یقینی طور پر حضرت کی قدم گاہ ہے اور اگر اس طرح کے کام سبب بنیں کہ مشکوک جگہ لوگوں کی نظر میں معتبر ہو جائے تو مشکل ہے ۔

اقسام: نذر

عاشورہ کے دن بچّہ کے سر پر قمع لگانے کی نذر ماننا

ایک ماں باپ، نذر مانتے ہیں کہ اگر خداوندعالم ،ان کو بیٹا عطاکرے تو روز عاشورہ اس کے سر پر قمع لگا ئیں گے،یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اس قسم کے اعمال شیعہ مذہب اور سید الشہدائ(علیہ السلام) کی عزاداری کے لئے باعث وہن (توہین)اور دشمنان اسلام کے لئے سوء استفادہ کا باعث ہے کیا اس نذر پر عمل کرنا واجب ہے ؟

جواب:یہ نذر صحیح نہیں ہے ،چونکہ نذر میں ، عمل کا بہتر(مستحب)ہونا شرط ہے اور یہ کام ، اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھ میں خامس آل عبا (علیہ السلام) کی عزاداری کے تمام ہی مسائل کے بار ے میں سوالات ایجاد کرنے کا بہانہ آجاتاہے ،عزاء سید الشہداء (علیہ السلام) جو قربتہً الی اللہ کاموں میں سب سے افضل ہے ، لہٰذا یہ نذر اشکال نے خالی نہیں ہے ،اور اگر فرض بھی کرلیں کہ یہ عمل بہتر ہے تو دوسرے کے بار ے میں نذر کرنا صحیح نہیں ہے ۔

اس قربانی کا مصرف جو کسی امام زادے کے مزار کیلئے نذرکی گئی ہو

جس بھیڑ کو امام زادہ کے مزار کے لئے نذر کیا گیا ہے اس کو کیسے مصرف کریں ؟ کیا نذر کرنے والا شخص بھی بذات خود استعمال کر سکتاہے؟

جواب: اس بھیڑ کو جسے امام زادے کے لئے نذر کیا ہے، اس کے گوشت کو اس مقام پر آنے والے زائرین اور فقیروں کے لئے استعمال کرنا چاہیئے ،اور اگر خود بھی زائر ہو تو وہ بھی اس میں سے حصہ حاصل کر سکتاہے۔

نذر کے مصرف کو بدلنا

ایک شخص نے کئی سال پہلے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اس کی حاجت پوری ہو جائے تو اپنے عمومی حمام کی آمدنی کی ایک مقدار کو امیر المومنین (علیہ السلام) کے لئے وقف کرے گا یا کہ اس سے،٢٠١٩اور ٢١ رمضان میں افطار کرائے گا ،اس شخص نے کئی سال تک ان تاریخوں میں افطار کرایا ہے ، جبکہ یہ افطاری ،واقعی مستحق اشخاص تک پہونچ نہیں پائی تھی ، یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ مذکورہ شخص کو یہ نہیں معلوم ہے کہ اس نے اپنی اس نذر پر صیغہ پڑھا تھا یا ویسے ہی زبانی کہہ دیاتھا اس تمہید کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ اس رقم کو عام لوگوں کے لئے نفع بخش کاموں میں خرچ کر دیا جائے ، مثال کے طور پر نادار اور غریب لڑکا اور لڑکیوں کی شادی کرانے میں خرچ کر دیا جائے یا یہ کہ اسی مقدار ، میں خشک طعام ، فقیروں کے درمیان ، تقسیم کرا دیا جائے ، یا یہ کہ اس رقم کو کمیتہ امداد(امام خمینی کے نام پر بنائی گئی کمیٹی جو لوگوں کی امداد کرتی ہے )کہ حوالہ کر دیا جائے ۔رقم کی مقدار تقریباً ایک لاکھ تومان ہوتی ہے ، برائے مہربانی راہنمائی فرمایئں۔

جواب: چنانچہ نذر کے صیغہ کو ، فارسی زبان ہی میں پڑھا ہو ،اس کو بدلنا جائز نہیں ہے اور اگر صیغہ نہیں پڑھا ہے تب اس کوبد لنے میں کوئی مخالفت نہیں ہے ۔

قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت