اسلامی قوانین کا عورت اور مرد کے درمیان عدم فرق کے کنویشن سے ٹکراؤ
کنوینشن کے مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا حضور اس بین الاقوامی معاہدہ کے احکام اسلامی کے ساتھ متعارض مورد کو اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ اس کی جزئی باتوں کو اس طرح سے حذف نہ کریں کہ کنوینشن کی روح یعنی مرد اور عورت کے ہر طرح کے عدم افتراق کے مخالف نہ ہو توکیا اس صورت میں احکام اسلامی کے مخالف موارد کو حذف کرتے ہوئے اس معاہدہ کو قبول کیا جاسکتا ہے؟
اس کنوینشن کا احکام اسلامی کے ساتھ تعارض اس حد تک ہے کہ جس کی احکام اسلامی کے ساتھ تطبیق دینا ممکن نہیں ہے، لیکن بعض موارد میں راہ حل موجود ہیں، البتہ احکام اسلامی کے ساتھ کامل طور سے اس کی تطبیق کی کوئی راہ نہیں ہے، کتنا اچھا ہے کہ دنیا کے مسلمان اپنے مکتب اور مذہب کی حفاظت کی خاطر اس طرح کے معاہدوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں اور ان جیسے معاہدوں کے سامنے تسلیم ہونے کی جگہ اسلام کے بزرگ علماء آپس میں ملکر بیٹھیں اور جس چیز پر سب اتفاق اور اجماع ہو اسے بیان کریں اور اختلافی موارد کو مجتہدین کے اوپر چھوڑدیں ۔ اور ہمیشہ کے لئے تہذیبوں اور قوانین کے تھوپنے والوں کی سازش کو اسلام کی ضرورت اور قوانین کے مخالف ہونے کے ذریعہ مایوس کردیں ۔