چور کے کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑ نا
چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد، کیا چور، اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو طبّی مدد کے ذریعہ جڑوا سکتا ہے؟
فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱.۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵.
چور کے کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑ نا
چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد، کیا چور، اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو طبّی مدد کے ذریعہ جڑوا سکتا ہے؟
فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱.۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵.
شراب پینے کی سزا
کیا شراب پینے والے پر لعنت کرنا جائز ہے؟ اس کی حد (سزا ) کتنی ہے؟
جو اعلانیہ طور پر شراب پیتا ہے، اس پر لعنت کرنا جائز ہے اور اس کی حد (سزا) ۸۰ کوڑے ہیں ۔
شراب پینے کی سزا
کیا شراب پینے والے پر لعنت کرنا جائز ہے؟ اس کی حد (سزا ) کتنی ہے؟
جو اعلانیہ طور پر شراب پیتا ہے، اس پر لعنت کرنا جائز ہے اور اس کی حد (سزا) ۸۰ کوڑے ہیں ۔
دوسروں کو گالی دینے کی سزا
اُس آدمی کا کیا حکم ہے جو اپنی زوجہ کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ہے اور اس کی زبان کو ہمیشہ دوسروں کی غیبت کرنے کی عادت ہوگئی ہے؟
بعض مواقع پر، دوسروں کو گالیاں دینے کی تعزیری سزا ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں اس کی سزا حد قذف (۸۰کوڑے) ہوتی ہے جو حاکم شرع کے ذریعہ دی جاتی ہے ۔
دوسروں کو گالی دینے کی سزا
اُس آدمی کا کیا حکم ہے جو اپنی زوجہ کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ہے اور اس کی زبان کو ہمیشہ دوسروں کی غیبت کرنے کی عادت ہوگئی ہے؟
بعض مواقع پر، دوسروں کو گالیاں دینے کی تعزیری سزا ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں اس کی سزا حد قذف (۸۰کوڑے) ہوتی ہے جو حاکم شرع کے ذریعہ دی جاتی ہے ۔
وہ مسلمان جو پیغمبر اکرم کو برا کہے
ایک مسلمان آدمی، غصّہ کی حالت میں بار بار، رسول اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلم وائمہ طاہرین علیہم السلام کی توہین کرتا ہے حالانکہ بزعم وخیال خود، حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام پر اعتقاد اور ان سے عشق کا دعویدار ہے، اس صورت میں، اس کے بارے میں اس کی زوجہ، بچے اور رشتہ داروں کا کیا وظیفہ ہے؟
اگر یہ حالت، اس کی عادی حالت ہے (یعنی اس کی عادت ہوگئی ہے) تب وہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، لہٰذا اس کی زوجہ کے لئے اس سے جدا رہنا ضروری ہے، لیکن اگر وہ طبیعی حالت سے خارج ہوجاتا ہے، یا مشکوک ہے کہ طبیعی حالت سے خارج ہوا ہے یا نہیں (مثلاً دیوانگی اس پر طاری ہوئی ہے یا نہیں) تب اس صورت میں اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگے گا نیز پہلی صورت میں اگر وہ شخص توبہ کرلے اور اس عورت سے دوبارہ نکاح کرلے تو وہ عقد صحیح ہے ۔
وہ مسلمان جو پیغمبر اکرم کو برا کہے
ایک مسلمان آدمی، غصّہ کی حالت میں بار بار، رسول اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلم وائمہ طاہرین علیہم السلام کی توہین کرتا ہے حالانکہ بزعم وخیال خود، حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام پر اعتقاد اور ان سے عشق کا دعویدار ہے، اس صورت میں، اس کے بارے میں اس کی زوجہ، بچے اور رشتہ داروں کا کیا وظیفہ ہے؟
اگر یہ حالت، اس کی عادی حالت ہے (یعنی اس کی عادت ہوگئی ہے) تب وہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، لہٰذا اس کی زوجہ کے لئے اس سے جدا رہنا ضروری ہے، لیکن اگر وہ طبیعی حالت سے خارج ہوجاتا ہے، یا مشکوک ہے کہ طبیعی حالت سے خارج ہوا ہے یا نہیں (مثلاً دیوانگی اس پر طاری ہوئی ہے یا نہیں) تب اس صورت میں اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگے گا نیز پہلی صورت میں اگر وہ شخص توبہ کرلے اور اس عورت سے دوبارہ نکاح کرلے تو وہ عقد صحیح ہے ۔
قذف (تہمت والزام) کرنے والے کیلئے حَد کے اِجراء کا خطرناک ہونا
ایک پچہتّر (۷۵) سالہ خاتون کے بارے میں حد قذف کا حکم صادر ہوگیا ہے، لیکن قانونی ڈاکٹر کی گواہی کے مطابق وہ عورت بیمار ہے اور اس کے لئے کوڑے کی سزا خطرناک ہے، کیا شفایاب ہونے تک صبرو انتظار کرنے کا مسئلہ، قذف کی سزا میں بھی پایا جاتا ہے؟ اور اگر بیمار کا کبھی بھی علاج نہ ہوسکے (یعنی اگر بیمار لا علاج ہو) تب کیا حکم ہے؟
اگر حد کے اجراء کرنے کی صورت میں، خطرے کا خوف ہو، تواس سے پرہیز کرنا چاہیے اور خطرہ ٹلنے تک موقوف رکھنا چاہیے اور اگر صحتیابی کی امید نہیں ہے تب صبر وانتظار سے استفادہ کرنا چاہیے ۔
کفر اور مرتد ہونے کا الزام و تہمت
جو شخص، دوسرے پر کفر والحاد کی تہمت لگاتا ہے اور حاکم شرع کے سامنے اس الزام کو ثابت نہیں کرسکتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟الف) کیا اس طرح کے مورد کو قذف کا مصداق سمجھا جاسکتا ہے؟ب) جواب کے منفی ہونے کی صورت میں، اس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے؟ج) چنانچہ وہ شخص، جس پر تہمت لگائی گئی ہے، اپنے حق سے صرف نظر اور درگذر کرے تو کیا اس طرح کا الزام لگانے والے شخص سے، سزا (حد) یا تعزیر ساقط ہوجائے گی؟
الف و ب) قذف فقط دو صورت میں ہوتا ہے: زنا کی تہمت لگانا یا لواط کا الزام لگانا، باقی دوسرے ناجائز الزامات لگانے پر تعزیر (غیر معین سزا) ہے ۔جواب: ج) ظاہر یہی ہے کہ حقدار کے اپنے حق سے درگذر کرنے سے، تعزیر کا حکم جاری نہیں ہوگا، مگر یہ کہ حاکم شرع تشخیص دے کہ اس طرح کے موارد میں، تعزیر ی سزا کو ترک کرنا، معاشرے میں گناہ وفساد کا سبب بنے گا، تب عنوان ثانوی کے اعتبار سے اس کو تعزیر کیا جائے گا ۔
قذف (زنا کی تہمت والزام) کے موارد
جو شخص، دوسرے پر کفر والحاد کی تہمت لگاتا ہے اور حاکم شرع کے سامنے اس الزام کو ثابت نہیں کرسکتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟الف) کیا اس طرح کے مورد کو قذف کا مصداق سمجھا جاسکتا ہے؟ب) جواب کے منفی ہونے کی صورت میں، اس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہیے؟ج) چنانچہ وہ شخص، جس پر تہمت لگائی گئی ہے، اپنے حق سے صرف نظر اور درگذر کرے تو کیا اس طرح کا الزام لگانے والے شخص سے، سزا (حد) یا تعزیر ساقط ہوجائے گی؟
الف و ب) قذف فقط دو صورت میں ہوتا ہے: زنا کی تہمت لگانا یا لواط کا الزام لگانا، باقی دوسرے ناجائز الزامات لگانے پر تعزیر (غیر معین سزا) ہے ۔جواب: ج) ظاہر یہی ہے کہ حقدار کے اپنے حق سے درگذر کرنے سے، تعزیر کا حکم جاری نہیں ہوگا، مگر یہ کہ حاکم شرع تشخیص دے کہ اس طرح کے موارد میں، تعزیر ی سزا کو ترک کرنا، معاشرے میں گناہ وفساد کا سبب بنے گا، تب عنوان ثانوی کے اعتبار سے اس کو تعزیر کیا جائے گا ۔
پھانسی کے طریقہ کا بدلنا
اگر کسی آدمی کو لواط کے جرم میں، فقہ میں مذکورہ کوئی بھی سزا ہوگئی ہے، کیا اس صورت میں، اس کو پھانسی کے تختہ یا گولی مار کر قتل کیا جاسکتا ہے؟
اگر مصلحت تقاضا کرے تب، قتل کی نوعیت کو تبدیل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔