خواتین کا گاڑی چلانا
عورتوں کے لیے گاڑی چلانے کا کیا حکم ہے؟
حجاب اور دوسری شرعی باتوں کی رعایت کے ساتھ کوئی حرج نہیں ہے۔
حجاب اور دوسری شرعی باتوں کی رعایت کے ساتھ کوئی حرج نہیں ہے۔
حکومت اسلامی کے ٹرایفک کے قوانین و ضوابط کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
سگریٹ اور تمام نشہ آور مواد کا استعمال حرام ہے، اگر اس بات کے پیش نظر کہ ان کا ترک کرنا تمام عادت کے شکار لوگوں کے لیے ممکن ہے لہذا اس میں اضطرار کا تصور نہیں ہے مگر یہ کہ ماہر اور دانا طبیب کسی کو خاص اس کا حکم دے اور اس مسئلہ میں نئے شروع کرنے والوں اور پرانے پینے والوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بغیر ڈرائیونگ لائسنسی کے موٹر کار چلانے میں اشکال ہے ۔
جادوگروں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور نہ اس پر توجہ کرنا چاہیے، میں تم کو ایک وظیفہ بتاتا ہوں اگر اس پر عمل کروگے تو انشاء الله ٹھیک ہوجاؤگے: نمازوں خصوصاً نماز صبح کو اوّل وقت پڑھو، نماز صبح کے بعد داہنے ہاتھ کو سینے پر رکھ کر ستّر مرتبہ ”الفتاح“ کا ورد کرو، پھر ایک سو دو مرتبہ صلوات پڑھو اور دن رات میں پانچ مرتبہ آیت الکرسی کی تلاوت کرکے اپنے اوپر پھونک لو، اور جب بھی شدید فکری ناراحتی میں گرفتار ہو تو ”لاحول ولا قوّة الّا بالله“ کے ذکر کو پڑھو، اس وظیفہ کو چالیس دن تک پڑھیں، انشاء الله تمھاری مشکل دور ہوجائے گی ۔
اس طرح کی رواتیں حقّ الناس کو شامل نہیں ہیں، ان کی دائیگی ضروری ہے، ایسے ہی وہ گناہ جن کے لئے حد شرعی ہے ان کو بھی شامل نہیں، بلکہ ان کو جاری ہونا چاہیے، نیز ایسے گناہوں کو بھی شامل نہیں ہیں جن کی تلافی کی جاسکتی ہو، قضا اور کفارہ ان اعمال سے ساقط نہیں ہوتے اور ان روایتوں کا ان گناہوں کے علاوہ شامل ہونا کوئی بعید نہیں ہے ۔
بہتر ہے کہ دعاؤں کو اسی طرح پڑھنا چاہیے جس طرح آئمہ علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں، اور اگر عزاداری کا قصد ہے تو دعا سے پہلے یا دعا کے بعد، انجام دیں اور دعا میں کوئی چیز تکرار نہ کریں ۔
دعائے توسل کا کوئی دن یا کوئی رات مخصوص نہیں ہے ۔
اس سوال کے دو جواب ہیں:۱۔ ان سے مراد لوگوں کی تشویق اور تعلیم ہو؛ یعنی اگر لوگ گناہوں کے مرتکب ہوں اور رحمت الٰہی قطع ہوجائے تو راہ چارہ کیا ہے ۔۲۔ ترک اولیٰ کی طرف اشارہ ہو، البتہ ترک اولیٰ اس معنی میں نہیں ہے کہ کار حرام یا مکروہ انجام ہوا ہو، بلکہ ترک اولیٰ ممکن ہے مستحب ہو، کہ جو اپنے بڑے مسحتب کی نسبت ترک اولیٰ کا عنوان پیدا کرلے، اس مسئلہ کی شرح کو ہم نے ”پیام قرآن“ کی ساتویں جلد کے صفحہ ۱۰۳ پر تحریر کیا ہے ۔
وہ دعائیں جو آئمہ علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں اور کوئی خاص طبقہ ان میں ذکر نہیں ہوا، تمام لوگوں کے لئے مفید اور ترقی کا سبب ہے ۔
اس کی سند معتبر نہیں ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معصومین علیہم السلام خصوصاً وجود مبارک امیر المومنین علیہ السلام سے توسل کرنا اور بارگاہ خداوندی میں ان کو شفیع قرار دینا، بہترین عبادت اور حل مشکلات کا سبب ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ مذہب اہل بیت علیہم السلام کے پیروان ایسی دعاؤں اور توسلات سے استفادہ کریں جو معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں؛ جیسے دعائے توسل کیونکہ اس کو علامہ مجلسیۺ اور دیگران نے معتبر کتب کے حوالے سے آئمہ علیہم السلام سے نقل کیا ہے، اور حاجتوں کی برآوری کے لئے بہت زیادہ موٴثر ہے ۔
اگر دعا ایسی ہوںجو معتبر کتابوں میں تحریر ہوئی ہیں، تو ان کے لکھنے کے عوض پیسہ لینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
اُن دعاؤں کے لکھنے میں جو آئمہ علیہم السلام سے کتب معتبرہ میں موجود ہیں، کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن دعا لکھنے کا دھندا کرنا کہ جو پیسہ کمانے والوں میں رائج ہے، صحیح نہیں ہے ۔
اگر مذکورہ افراد پڑھے لکھے اور باتقویٰ لوگ ہوں اور معتبر کتب سے استفادہ کرتے ہوں تو ان کی دعا نویسی صحیح ہے، اس کے علاوہ اُن پر اعتقاد نہیں کیا جاسکتا ۔