عدالتوں میں چوری کی حد کا جاری نہ ہونا
قانون اسلامی کے زمانہٴ تصویب سے لیکر اب تک بہت کم قاضیوں اور عدالتوں کا سراغ لگاسکتے ہیں جنہوں نے چوری مےں حد الٰہی کے جاری کرنے پر کوئی اقدام کیا ہو، وہ اپنے اس عمل کی توجیہ میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وائمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث سے استناد کرتے ہیں کہ جن کا مضمون اس طرح ہے:”چنانچہ قاضی، حد الٰہی کے جاری نہ کرنے کی غلطی ، حد الٰہی جاری کرنے کی غلطی سے بہتر ہے “ کچھ دوسرے قاضی مقام توجیہ میں بیکاری اور ان برے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دشمنوں کی طرف سے پروپیکنڈہ کئے جاتے ہیں، خلاصہ یہ کہ ہر ایک خصوصاً سرقت اور محاربہ کی حد کوجاری کرنے سے شانہ خالی کرتا ہے ، نوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ گویا ملک میں کوئی بھی ایسی سرقت نہیں ہوتی جو حد الٰہی کا سبب ہو؛ اس سلسلے میں حضور کی نظر کیا ہے ؟
جواب: جب بھی حد سرقت کے شرائط مکمل ہوں تو قاضی کو وسوسہ نہ کرنا چاہئے اور حدود الٰہی جاری کرنا چاہئے البتہ ضروری نہیں ہے کہ حد ملاٴعام میں جاری ہو تاکہ مخالفین اس کے اوپر منفی پروپیکنڈہ نہ کرےں۔