روحی اور نفسیاتی صدموں کی وجہ سے خسارت
عدالت کے مبتلا بہ مسائل میں سے ایک -مسئلہ اشخاص کے جسمکو نقصان پہنچانا ہے ۔ کیا جسمانینقصانات مادی اورفیزیکی نقصان سے محضوص ہیں یا روحی اورنفسیانی نقصانات کو بھی شامل ہیں ؟ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ روحی اور نفسیاتی نقصانات کاااثرمادی اور فیزیکی نقصانات سے کئی گنازیادہ ہے ، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص روحی اور نفسیاتی نقصان کی وجہ سے پوری عمر رنج و غم میں مبتلا رہے ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص ، نقصان پہنچنے کی مدت میں کام کاج سے باز رہے (خصوصاً علمی کاموں سے ) اور اپنے مد نظر اہداف کو حاصل نہ کرسکے، اور اجباراً و نا خواستہ کسی دوسرے راستے پر لگ جائے ۔ کیا شرعی طور سے ایسے نقصانات تلافی کے قابل ہیں ؟
جواب:اس چند چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ روحی اور معنوی نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی اس کی حدود کو معین کیا جاسکتا ہے، لہذا ان کے لئے حسارت کو معین کرنا مشکل ہے ، اور یہ کام غالباً جھگڑے کا سبب ہو جاتا ہے اور یہ ہی وہ چیز ہے جس سے اسلام شدَّت سے پرہیز چاہتا ہے؛ البتہ بعض ایسے موارد بھی ہیں جیسے کامل طور سے ہوش و حواس کا کھو بیٹھنا (جنون )یا اس سے کم کہ جسکا اندازہ لگانا ممکن ہے ، ان جیسے نقصانات کی تلاقی فقہ اسلامی میں بیان ہوئی ہے ۔