قرائت اور اذکار نماز میں قصد انشاء کرنا
کیا سورہٴ حمد اور نماز کے تمام اذکار میں انشاء کا قصد کرنا جائز ہے؟
اذکار، نماز، اور قرائت حمد وغیرہ کے معنی کا سمجھنا اور قصد انشاء کرنا نہ فقط جائز بلکہ بہت اچّھا ہے اور یہاں پر چند نکتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے:۱۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ان الفاظ کا مقصد ان کے معانی ہیں، تسبیح وتحلیل وحمد وتعریف کا ہدف خدا ہے اور یہ مطلب بغیر معنی کے قصد کے الفاظ کے قصد سے حاصل نہیں ہوسکتا ، یہاں تک کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق سورہٴ حمد بھی ایسا ہی ہے، آیات اور تعبیرات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ پروردگار کے سامنے بندہ کی زبان سے ہیں اور یہ فکر کہ ان میں قصد انشاء کرنا قصد قراٴنیت کے منافی ہیں، ایک بڑی غلطی ہے کہ جس سے خدا سے پناہ مانگنی چاہیے؛ کیونکہ یہ سورہٴ حمد کے مقصد کو بالکل ختم کردیتا ہے خصوصاً ان روایات کو ملاحظہ کرنے کے بعد جو سورہٴ حمد کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔۲۔ کوئی شک نہیں ہے کہ سورہٴ توحید یا دوسرے وہ سورے جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں اس امر سے جدا ہیں اور خداوندعالم کے کلمات کی حکایت، پند ونصیحت اور تعلیم کے لئے ہیں (مثلاً کوئی بھی ”قل ھو الله احد“ میں قصد انشاء نہیں کرتا ہے) ۔۳۔ معنا کا قصد کرنا کہ کبھی تفصیلی ہے (جیسے خواص کا قصد) اور کبھی اجمالی ہے (جیسے وہ قصد جو عوام کرتے ہیں) عوام جانتے ہیں کہ یہ کلمات، حمد وتسبیح وتمجید وثناء ودعا ہیں؛ لیکن ان کی جزئیات کو نہیں جانتے ہیں ۔۴۔ حق یہ ہے کہ اجمالی قصد کافی نہیں ہے اور عوام پر ضروری نہیں ہے کہ نماز کے معانی کو بطور تفصیل سمجھیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں عرب زبانوں کے علاوہ بہت زیادہ قومیں اسلام میں داخل ہوئی ہیں جو عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں بات کرتی ہیں، اگر قرائت نماز کے اذکار وقرائت کے معانی کا تفصیل کے ساتھ جاننا واجب ہوتا تو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ علیہم السلام کی روایات میں اس کی طرف اشارہ ہوتا ، خصوصاً بہت آئمہ علیہم السلام تو اس کا ذکر کرتے ہی جیسے امام رضا علیہ السلام کہ جنھوں نے ایک مدت ایرانیوں کے ساتھ زندگی گذاری ہے ۔