قرض الحسنہ بینک کی رقم کو بغیر اجازت کے استعمال کرنا
کیا قرج الحسنہ بینک کے ذمہ دار حضرات ، بینک کی موجودہ رقم کو بینک کے اعضاء سے وکالت لئے بغیر ( بینک کے اعضاء وحصہ دار ) قرض الحسنہ کے عنوان سے بینک کو رقم دیتے ہیں ) ان سے کام کریں ، درجہ ذیل دو صورتوں کا شرعی حکم کیا ہے ؟الف) حاصل شدہ منافع ، قرض الحسنہ بینک میں ، بطور مشترک جو قرض اور ضروری چیزوں کی خریداری کو شامل ہے ، خرچ ہو۔ب) حاصل شدہ منافع فقط کام کرنے والوں کے لئے ہو ،
اجازت لئے بغیر جائز نہیں ہے ، اور اگر قرض الحسنہ بینک میں ، حساب کرے یعنی کھاتا کھلواتے وقت ، یہ بات صراحت سے بیان کر دی جائے کہ قرض الحسنہ کی کچھ رقم کو بینک کے منافع کے لئے استعمال کیا جائے گا تو کافی ہے ، اور جس طرح لوگوں نے اجازت دی ہے اسی کے مطابق عمل کیا جائے-
قرض الحسنہ بینک کا کام انجام دینے کی اجرت لینا
چند لوگ ایک دوسرے کی مدد سے ایک قرض الحسنہ بینک ، بناتے ہیں ، اور جو لوگ قرض الحسنہ بینک کے عضو ء ہیں ، ان کو قرض دیتے ہیں ، کیا وہ فائدہ جو اپنے کام کی اجرت کے طور پر لیتے ہیں ، وہ حرام ہے ؟ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس طرح کے بینکوں کا کوئی ملازم نہیں ہوتا ، کہ اس کی تنخواہ دی جائے ، لہذا اس بناء پر جو فائدہ لیا جاتا ہے اس کے حلال ہونے کی صورت میں ، کس سلسلے میں اس کو استعمال کیا جائے ؟
کام کی اجرت ( مزدوری ) سے مقصود وہ حق الزحمت ہے جو بینک یا قرض الحسنہ وغیرہ کے ملازموں کو ، تنخواہ کے عنوان سے اس زحمت کے بدلے جو حساب کو محفوظ اور دیگر خدمات کے بدلے ، دیا جاتا ہے ، چنانچہ اسی قصد اور نیت سے ، مزید رقم لی جائے اور تنخواہ کے عنوان سے ملازموں اور دیگر اخراجات میں خرچ کیا جائے تو کوئی ممانعت نہیں ہے ، لیکن جوصورت آپ نے تحریر کی ہے اس میں اشکال ہے۔
قرض الحسنہ بینک کا کام انجام دینے کی اجرت لینا
چند لوگ ایک دوسرے کی مدد سے ایک قرض الحسنہ بینک ، بناتے ہیں ، اور جو لوگ قرض الحسنہ بینک کے عضو ء ہیں ، ان کو قرض دیتے ہیں ، کیا وہ فائدہ جو اپنے کام کی اجرت کے طور پر لیتے ہیں ، وہ حرام ہے ؟ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس طرح کے بینکوں کا کوئی ملازم نہیں ہوتا ، کہ اس کی تنخواہ دی جائے ، لہذا اس بناء پر جو فائدہ لیا جاتا ہے اس کے حلال ہونے کی صورت میں ، کس سلسلے میں اس کو استعمال کیا جائے ؟
کام کی اجرت ( مزدوری ) سے مقصود وہ حق الزحمت ہے جو بینک یا قرض الحسنہ وغیرہ کے ملازموں کو ، تنخواہ کے عنوان سے اس زحمت کے بدلے جو حساب کو محفوظ اور دیگر خدمات کے بدلے ، دیا جاتا ہے ، چنانچہ اسی قصد اور نیت سے ، مزید رقم لی جائے اور تنخواہ کے عنوان سے ملازموں اور دیگر اخراجات میں خرچ کیا جائے تو کوئی ممانعت نہیں ہے ، لیکن جوصورت آپ نے تحریر کی ہے اس میں اشکال ہے۔
قرض دیتے وقت فقیروں کی مدد کرنے کی شرط لگانا
ایک قرض الحسنہ بینک جو بغیر سود کے لوگوں کو قرض دیتا ہے ، قرض خواہوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے یہ چاہتا ہے ( شریعت کی رو سے ممانعت نہ ہونے کی صورت میں )یہ اعلان کرے کہ جو لوگ قرض الحسنہ کے امور خیریہ سے مربوط دفتر ( جوغریب اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا ہے اور واپس وصول نہیں کرتا ) کی مدد کریں ، نمبر کے بغیر اور بہتر طور پر ، قرض الحسنہ سے ، قرض حاصل کریں ، اس مسئلہ کا حکم شرعی ہے ؟
کوئی اشکال نہیں ہے۔
چینل اور سلسلہ وار بنانے کی صورت میں قرض الحسنہ سوسائٹی کا قرض دینا
ایک قرض الحسنہ سوسائٹی عوام کو ساتھ سات لاکھ تومان کا قرض دینے کے مقصد سے درج ذیل شرائط کے ساتھ بنائی گئی ہے:۱۔ قرض کے خواہشمند حضرات ، درخواست دیتے وقت مبلغ تین ہزار تومان سوسائٹی کے کارکنان کے محنتانہ کے طور پر، ادا کریں ۔۲۔ درخواست دینے والا ہر آدمی ، قرض کے ضرورتمند تین لوگوں کو آشنا کرائے (یعنی تین ممبر بنائے) اور ان تینوں میں سے بھی ہر آدمی مبلغ تین ہزار تومانمحنتانہ کے طور پر اداکرے ۔۳۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے یہاں تک کہ درخواست دینے والا پہلا شخص، ساتویں نمبر پر پہونچ جائے ، تب اس صورت میں وہ شخص قرض لینے کے لئے اقدامات کرسکتا ہے ۔۴۔ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرض الحسنہ سوسائٹی، مذکورہ محنتانہ کے علاوہ قرض لینے والوں سے مزید اور کوئی فائدہ وصول نہیں کرتی۔شریعت کی رو سے مذکورہ اقتصادی کاموں کا حکم کیا ہے؟
یہ کام حقیقت میں ایک قسم کے جوئے سے مشابہ ہے اور تھوڑا پیچیدہ ہے، افسوس اس کی اصل جڑ مغری دنیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ رقم، محنتانہ طور پر وصول کی جاتی ہے، اور ساتھ لاکھ قرض دیا جاتا ہے جبکہ وہ بھی واپس کمیٹی کی جیب میں چلا جاتا ہے، محنتانہ ان لوگوں کی زحمتوں کا منصفانہ حق ہوتا ہے جو اس ادارے میں کوئی کام انجام دیتے ہیں، جسے اُن کے کام کی مقدار کے مطابق، اجرت کے طور پر انھیں دیا جانا چاہیے اور ایک ہی مرحلہ میں ساٹھ لاکھ تومان کی کثیر رقم کو محنتانہ کا نام دینا ایک قسم کا دھوکہ وفریب ہے، یقیناً آپ حضرات اس ناجائز کام میں ملوث ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں گے ۔
دوسرے شخص کے چیک سے، چیزوں کی خریداری
خریدار کچھ ایسے چیک، فروخت کرنے والے یعنی دکاندارکو دیتا ہے جن کا جاری کرنے والا کوئی تیسرا شخص ہے، چیک کی رقم وصول نہ ہونے کی صورت میں (چونکہ اس کے اکاوٴنٹ میں رقم نہیں ہوتی) کیا دکاندار کو خریدار کی طرف رجوع کرنے کا حق ہے، یا یہ کہ اس تیسرے آدمی کے چیک کو، مکان کے قبول کرنے سے، خریدار بریٴ الذمہ ہوجائے گا اور اس کی ذمہ داری صاحب چیک یعنی تیسرے آدمی کی طرف منتقل ہوجائے گی؟ نیز ان دو صورتوں میں کہ جب خریدار کو تیسرے آدمی یعنی صاحب چیک نے اس چیک کو اپنے قرضے کی بابت دیا ہو، یا فقط امانت یا ضمانت کے عنوان سے اس کے حوالہ کیا ہو، کیا کوئی فرق ہوگا؟
چیک ایک حوالہ کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا جب تک چیک کی رقم وصول نہ نہیں ہوگی اس وقت تک خریدار، دکاندار کا مقروض ہے مگر یہ کہ دکاندار معاملہ کے وقت خریدار کی ذمہ داری کے بجائے، تیسرے شخص یعنی صاحب چیک کی ذمہ داری کو قبول کرلے ۔
مالی کمپنیوں میں عہدہ داروں اور خریداروں کے مراجع کا الگ الگ ہونا
اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ قرض الحسنہ سوسائٹی کے ملازمین اور خریدار مختلف مراجع تقلید کی تقلید کرتے ہیں اور بینک داری کے سیسٹم میں مراجع تقلید کے فتاویٰ مختلف ہیں، مسائل شرعی اور جدا جدا نظریوں کے سلسلہ میں ہماری کیا تکلیف ہے؟
جواب: قرض الحسنہ سوسائٹی کے چلانے کے والوں کا وظیفہ ہے کہ اپنے مراجع تقلید کے فتاویٰ کے مطابق عمل کریں اور خریداروں کے متعلق تحقیق وجستجو کرنا کہ وہ کس کے مقلّد ہیں ان پر ضروری نہیں ہے۔
بینک کے حصص کو خریدنے کے مقابل میں انعام وصول کرنا
پاکستانی بینکوں میں کچھ مخصوص حصص بنام بونڈ فروخت کیے جاتے ہیں یہ اوراق چیک کی طرح ہیں اور ان کی قیمت بھی ثابت رہتی ہے لیکن کبھی کبھی حساب کے مطابق حکومت ایک معیّن رقم کو انعام یا کسی دوسرے عنوان سے ان کے مالکان کو ادا کرتی ہے، اِن حصص کا خریدنا اور اس انعام کو لینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: کیونکہ یہ حصص اس پیسے کے مقابل ہیں جو ان کے خریدنے میں دیا گیا ہے لہٰذا ہرحال میں ان کی مالیت ہے اور انعامات، کسی خاص معاہدے کے تحت انجام نہیں پاتے ، بلکہ حکومت اپنی طرف سے ادا کرتی ہے، لہٰذا ان اوراق کے خریدنے اور اس انعام کے حاصل کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
سروس چارج کی کوقرض کی اصلی رقم سے کم کرلینا
کیا سروس چارج کو اصل قرض سے لیا جاسکتا ہے اور باقی ماندہ قرض کو ادا کردیں؟
جواب: کوئی اشکال نہیں ہے؛ بشرطیکہ قرض الحسنہ سوسائٹی کے خرچ سے زیادہ نہ ہو۔
قرض کی قسطوں کی مدت بڑھانے کے لئے سروس چارج کا دوبارہ لینا
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قرض دار تمام قسطوں کو اپنے وعدے پر ادا نہیں کرسکتا لہٰذا وہ قسطوں کی مدت بڑھانے کا تقاضا کرتا ہے، اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ قرض داروں کی طرف سے مقررہ وقت پر قسطوں کی ادائیگی سبب ہوتی ہے کہ دوسرے افراد کو قرض دینے کے ضمن میں ایک دوسرا چارج لیا جائے، کیا قرض کی مدّت بڑھانے کے لئے دوسرا سروس چارج لیا جاسکتا ہے؟
جواب: دوسرا سروس چارج اس صورت میں لیا جاسکتا ہے جب اس کو تنخواہوں میں خرچ کیا جائے۔
قرض الحسنہ سوسائٹی کے سروس چارج کی فیصدی کو بڑھانا
وہ قرض الحسنہ سوسائٹیاں جو ایک فیصد سروس چارج لیتی ہیں ملازمین کے اخراجات کے لئے کافی نہیں ہیں، کیا سروس چارج کی مقدار کو زیادہ کیا جاسکتا ہے؟
جواب: اگر پہلا سروس چارج ملازمین کی تنخواہوں کے لئے کافی نہیں ہے تو اس میں ضروری اضافہ کیا جاسکتا ہے۔