میت کی تقلید کرنا
کیا مردہ مجتہد کی تقلید کر سکتے ہیں؟
جواب:احتیاط یہ ہے کہ تقلید کا آغاز مردہ مجتہد سے نہ کیا جائے لیکن میّت کی تقلید پر ان مسائل میں باقی رہا جا سکتا ہے کہ جن کو پہلے انجام دے چکا ہو یا انجام دینے کے لئے فتویٰ حاصل کرچکا ہو۔
جواب:احتیاط یہ ہے کہ تقلید کا آغاز مردہ مجتہد سے نہ کیا جائے لیکن میّت کی تقلید پر ان مسائل میں باقی رہا جا سکتا ہے کہ جن کو پہلے انجام دے چکا ہو یا انجام دینے کے لئے فتویٰ حاصل کرچکا ہو۔
صرف ان مسائل میں مردہ مجتہد کے فتوی پر باقی رہ سکتے ہیں جس پر پہلے عمل کرچکے ہوں ۔
جواب:ایک فقیہ کا فقہ اور اصول فقہ کے علاوہ دوسرے علوم پر مہارت رکھنا دوسرے فقیہ پر ترجیح کا باعث نہیں بنتا لیکن جو علوم احکام کے سمجھنے یا موضوعات کو واضح کرنے میں موثر ہو ں، ترجیح کا باعث ہوتے ہیں۔
جواب:احتیاط یہ ہے کہ تقلید کا آغاز مردہ مجتہد سے نہ کیا جائے لیکن میّت کی تقلید پر ان مسائل میں باقی رہا جا سکتا ہے کہ جن کو پہلے انجام دے چکا ہو یا انجام دینے کے لئے فتویٰ حاصل کرچکا ہو۔
جواب:اس کو چاہئے کہ میّت کی تقلید پر باقی رہنے کے مسئلے میں ، زندہ مجتہد کی تقلید کرے لہٰذا ایسی صورت میں اگر اسکے زندہ مرجع کا فتوا میت کی بقا کے جواز پر ہو تو اسکے گذشتہ اعمال صحیح ہیں۔
جواب: صرف ان مسائل میں مردہ مجتہد کے فتوی پر باقی رہ سکتے ہیں جس پر پہلے عمل کرچکے ہوں ۔
جواب:آپ اس مسئلہ کے جواب کے لئے ہماری کتاب ”انوار الفقاھة“ میں رجوع کریں۔
جواب: جی ہاں ایسا ممکن ہے اور اس کے امکان پر بہترین دلیل، خود اس کا متحقق ہونا ہے جیسا کہ ہم حوزہ علمیّہ قم میں اس کے شاہد و ناظر ہیں۔
جواب:صرف علم اصول میں آگاہی اور اعلمیّت ،اعلم ہونے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اعلم ہونے کی دوسری شرطیں بھی ہیں۔
جواب: فقاہت میں مساوی (برابر) دو مجتہد کے طریقہ احتیاط کو حاصل کرنے سے اس کی پیروی کرنا منظور ہو تو کوئی مانع نہیں ہے۔
جواب:اگر اس کا مقصد احتیاط مطلق ہے تو اس کو چاہئے کہ تمام علماء کے اقوال کو دیکھے اور اگراحتیاط سے اس کا ہدف ان افراد کے درمیان ہے جن کی مرجعیت کا احتمال دیا جا سکتا ہو تو ایسی صورت میں صرف زندہ علماء کے اقوال سے واقف ہونا کافی ہے۔