سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

غیر مسلم شخص پر حدود اسلامی کا جاری کرنا

کیا حدود الٰہی غیر مسلم کے اوپر ہی جاری ہوسکتی ہےں؟ مثال کے طور پر، اگر ایک عیسائی شراب پئے ،یا زنا کرے کیا اس کا حکم مسلمان کے حکم سے جدا ہے اور کیا ان کے آئین کے مطابق ملزم پر حکم صادر ہونا چاہئے؟

جواب: زنا اور لواط جیسے جرم میں اگر دونو ں شخص غیر مسلمان ہوں تو حاکم شرع مخیر ہے کہ اسلام کے قوانین کے مطابق حکم جاری کرے یا ان کو ان کی عدالتوں کی طرف بھیج دے لیکن اگر ایک طرف مسلمان ہو ، چنانچہ اگر زانی مسلمان ہے اسلام کے حکم پر اس کے ساتھ عمل ہوگا، دوسرے شخص کے مورد میں مخیر ہے کہ اسلام کے قوانین کے مطابق عمل کرے یا اس کو اس کی عدالت کی طرف بھیج دے۔

غیر مسلم مجرموں سے برتاؤ کا طریقہ

کیا غیر مسلم مجروموں کو اسلامی احکام کے مطابق سزا دی جائے گی یا ان کے مذہب کے مطابق؟ دوسری صورت میں (یعنی اگر ان کو ان کے مذہب کے مطابق سزا دی جائے گی) سزا دینے والا قاضی مسلمان ہوگا یا ان کا اپنا (ہم مذہب) قاضی؟

جو چیز سورہٴ مائدہ کی بیالیسویں آیہٴ شریفہ سے استفادہ ہوتی ہے اور باب حدود اور جہاد میں ہمارے مجتہدین کے فتوے بھی اس کی تائید کرتے ہیں نیز متعدد روایتیں بھی اس پر دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ: مسلمان قاضی کے سامنے فقط دو راستے ہیں، پہلا راستہ یہ ہے کہ اگر وہ درخواست کریں تو اسلامی احکام کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ انہیں ان کے قاضیوں کے پاس بھیج دیا جائے تا کہ ان کے مذہب کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے ، اب رہی یہ بات کہ مسلمان قاضی ان کے مذہب کے مطابق، جو ہمارے عقیدہ کے مطابق تحریف شدہ اور منسوخ شدہ مذہب ہے، فیصلہ کرے اور اسی کو صحیح سمجھے تو اس طرح کی کوئی چیز نہ تو دلیلوں ہی سے استفادہ ہوتی ہے اور نہ ہی بزرگوں کے فتووٴں سے ثابت ہے، مذکورہ مشکل سے بچنے کے لئے جو آپ نے بیان کی ہے، فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان ہی میں سے کوئی نیک قاضی ان کے مذہب کے احکام کے مطابق لیکن اسلامی حکومت کے زیر نظر، فیصلہ کرے، اور مزید دقّت کی مراعات اور عدالت وانصاف قائم کرنے کے لئے، پہلے ان کے مذہب کے احکام، ماہرین سے استفادہ کرکے، قانون کی شکل میں پاس کئے جائیںاور بعض موارد (شخصی حالات) کے ذیل میں، ترتیب دیئے جائیں تاکہ کسی طرح سے بھی ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔

اللہ کی حدود جاری کرنے والا

افغانستان کے موجودہ حالات میں الله کے احکام اور حدود کے جاری کرنے کی ذمہ داری کن لوگوں کے اوپر ہے؟

ہر وہ عادل مجتہد جو اس علاقہ میں موجود ہے یہ کام انجام دے سکتا ہے اور مجتہد کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی عادل عالم جو جامع الشرائط مجتہد کی جانب سے نمائندگی گررہا ہو، حدود الٰہی کو جاری کرسکتا ہے

ملاٴ عام میں کوڑے کی حد کا جاری کرنا

آیہٴ شریفہ کو نظر میں رکھتے ہوئے تازیانے (کوڑا) کی حد کے سلسلے میں ذیل میں دئے گئے سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) طائفہ سے کیا مراد ہے؟ کیا تازیانے لگاتے وقت ایک بند مکان میں چند اشخاص کا ہونا کافی ہے، یا ملاٴ عام میں ہونا چاہیے؟ب) مومن کون لوگ ہیں؟ ایمان بمعنای خاص یا بہ معنای عام؟ج) فوق الذکر شروط کی رعا یت کرنا واجب ہے یا مستحب؟د) مذکورہ آیہٴ شریفہ کا حکم تعزیری تازیانے لگانے کی طرف بھی سرایت کرتا ہے؟

جواب: ملاٴ عام میں ہونا لازم نہیں ہے، لیکن ان موارد میں جہاں بہت سے لوگ جرم سے باخبر ہوگئے ہیں اور ملاٴ عام میں سزا کا اجراء مطلوب اثر رکھتا ہوتو اس صورت میں اولیٰ یہ ہے کہ ملاٴ عام میں کوڑے لگائیں جائیں۔جواب ب: ایما ن سے مراد ، بہ معنای عام ہے۔جواب ج: کچھ مومنین کا حاضر ہونا لازمی ہے۔جواب: تازیانے لگاتے وقت ایک طائفہ کے حاضر ہونے کے وجوب کا حکم لگانا مشکل ہے؛ لیکن اس کے جائز ہونے میں اگر لوگوں کی تنبیہ کے لئے مفید ہوکوئی اشکال نہیں ہے۔

دسته‌ها: مقدمات حدود

حد کی سزا میں تخفیف (چھوٹ ہلکی سزا) کا امکان

اگر کوئی شخص مکمل قرآن یا بعض پاروں کا حافظ ہو اور کسی ایسے جرم اور گناہ کا مرتکب ہوجائے جس کی حد (سزا) معین ہے، کیا اس کا حافظ قرآن ہونا، اس کی سزا میں تخفیف (چھوٹ) یا سزا کے ختم ہونے کا سبب ہوجائے گا؟

اگر اقرار کے ذریعہ، اس کا جرم ثابت ہوا ہو، تب تو حاکم شرع اس کی سزا میں چھوٹ (تخفیف) دے سکتا ہے یا اس سے صرف نظر کرسکتا ہے لیکن اگر بیّنہاور دلائل کے ذریعہ ثابت ہوا ہو تو سزا کا حکم، اپنی قوت پر باقی ہے ۔

دسته‌ها: تعزیرات

منافع اور حقوق کی چوری کرنا

الف:کیا منافع کا چراناشرعی سرقت ہے اور مجازات کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ؟مثلا کوئی کرایہ پر لی ہوئی ٹیکسی کو حرز میں رکھے اور دوسرا اس کو لے جائے اگر ٹیکسی کا مالک عدالت مےں شکایت نہ کرے کیا کراےہ پر گاڑی لینے والا شخص شکایت اور مال مسروقہ کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے؟۔ب: کیا حق کا چرانا سرقت شمار ہوگا اور اموال کی چوری کی طرح یہ بھی مجازات کے قابل ہے؟ مثلا”الف“ ”ب“ سے ایک موبائل فون کرایہ پرلے تاکہ اس سے ایک مہینہ استفادہ کرے اور اس کا دس ہزار تومان کرایہ دے،”ج“اس فائدہ کو ”الف“ سے غصب کرلے یعنی موبائل فون کی چوری کا تو قصد نہیں رکھتا تھا لیکن چاہتا تھا کہ ایک مہینہ تک اس کو استعمال کرے پھر اس کے مالک کو پلٹا دے ،کیا”ج“ کا ےہ عمل،موبائیل کو کرایہ پر لینے والے کے حق کی سرقت شمار ہوگی اور اس کی کوئی سزا بھی ہے ؟

جواب :الف و ب۔ منافع اور حق کی سرقت کو اموال کی سرقت کے احکام شامل نہیں ہوتے، لیکن ےہ عمل قابل تعذیر ہے۔

دسته‌ها: تعزیرات
قرآن و تفسیر نمونه
مفاتیح نوین
نهج البلاغه
پاسخگویی آنلاین به مسائل شرعی و اعتقادی
آیین رحمت، معارف اسلامی و پاسخ به شبهات اعتقادی
احکام شرعی و مسائل فقهی
کتابخانه مکارم الآثار
خبرگزاری رسمی دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی
مدرس، دروس خارج فقه و اصول و اخلاق و تفسیر
تصاویر
ویدئوها و محتوای بصری
پایگاه اطلاع رسانی دفتر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی مدظله العالی
انتشارات امام علی علیه السلام
زائرسرای امام باقر و امام صادق علیه السلام مشهد مقدس
کودک و نوجوان
آثارخانه فقاهت