ضرورت کے وقت منی نکالنا
استمناء کے ذریعہ منی خارج کرنے کا کیا حکم ہے البتہ اس صورت میں جبکہ اس کا بدن میں رہنا نقصان دہ ہو؟
عام طور پر ایسی حالت میں، سوتے وقت بدن سے خارج ہوجاتی ہے لہٰذا دوسرے کسی کام کی ضرورت نہیں ہے ۔
عام طور پر ایسی حالت میں، سوتے وقت بدن سے خارج ہوجاتی ہے لہٰذا دوسرے کسی کام کی ضرورت نہیں ہے ۔
اگر زوجہ کے ساتھ ملاعبہ کرنے کے ذریعہ استمناء کیا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر خود سے استمناء کرے تو حرام ہے خواہ زوجہ کی مرضی سے کرے یا بغیر مرضی کے ۔
ایک گناہ سے نجات حاصل کرنے کا راستہ دوسرا گناہ نہیں ہے، اُسے شادی کے متعلق فکر کرنا چاہیے، یا روزہ اور ورزش، جیسے طریقوں سے گناہ سے بچنا چاہیے اور دوسرے گناہ کا سہارا نہیں لینا چاہیے ۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ایسی حالت میں منی پیشاب کے ساتھ نکلتے وقت پیشاب میں مل جاتی ہے تو اس صورت میں غسل کا سبب نہیں ہے ، لیکن اگر بغیر پیشاب کے منی نکلے یا منی کی شکل میں بغیر پیشاب کے فقط منی نکلے تو غسل واجب ہوگا اور اگر متعدد بار غسل کرنا سخت عسروحرج کا باعث بن رہا ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرے ۔
جواب: غسل کرنا لازم نہیں ہے لیکن اگر اس کو یقین ہے کہ منی ہے تو خود کو پانی سے دھولے۔
جواب: منی کا ہر صورت میں خارج ہونا غسل کا باعث بنتا ہے، بشرطیکہ اس کو منی کے خارج ہونے کا یقین ہو اور اگرپروسٹیٹ (prostate)(مثانے کے غدود)کے آپریشن کی وجہ سے منی کے ذرات پیشاب میں حل ہوجائیں تو جنابت کا باعث نہیں ہے۔
جواب :کوئی اشکال نہیں لیکن حرم میں داخل نہ ہو۔
جواب : جائز ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ جماع نہ کرے ۔
اس سلسلے میں اسلام نے بہت آسان راہ حل بیان کیا ہے یائسگی (خون حیض کا بند ہوجانا ) پیری کی مانند ایک فطری چیز ہے گرچہ اس کو بیماری نہیں سمجھنا چاہیئے اور عورت کا اس کے برے اثرات سے بچنے کے لیے علاج کرانا صحیح ہے لہذا جس عورت کی عمر قمری سال کے مطابق پچاس سال کی ہوگئی ہے اور وہ خون دیکھے تو یہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا بشرطیکہ اس میں تمام علامت حیض کے ہوں اور جن عورتوں کے لیے بار بار غسل کرنا ضرریا زیادہ مشقت کا باعث ہورہا ہو تو وہ عورتیں غسل کے بجائے تیمم کرکے اپنی نماز پڑھیں ۔
جواب: تقریباً جنین کی لانہ سازی کے تین ہفتے کے بعد جفت تشکیل پاتا ہے ، اس مرحلہ میں جفت کا وظیفہ رحم کی ضخیم شدہ دیوار سے، بند ناف کے ذریعہ ، خوراک اور آکسیجن، حاصل کرنا ہے ۔اسی طرح جنین کی حیاتی فعالیت سے حاصل شدہ ، کاربنک گیس کو ماںکے خون میں منتقل کرتا ہے اور ا س بطن مادر میں موجود جفت کا دوسرا وظیفہ، مادری ماہا رمون یاپرجسترون کو مترشح کرنا ہے ، جس سے ماہواری بند ہوجاتی ہے ۔ د:اگر حاملہ نہ ہوسکے، تورحم کی پر خون اور ضخیم شدہ دیوار گرنا اوربہنا شروع ہوجاتی ہے ، جو ماہواری کے نام سے مشہور ہے ، خون بند ہوجانے کے بعد ، رحم دوبارہ نئے طریقہ سے استقرار حمل کے لئے تیار ہوجاتا ہے یعنی پُرخون اور ضخیم ہونا شروع ہوجاتا ہے لہٰذا جب ایک عورت حاملہ ہو جاتی ہے ، تو ہارمون کے مترشح ہونے کی وجہ سے جس کا تذکرہ گزرچکا ہے، معمولاً اس عورت کو ماہواری نہیں آتی ، ( نہ یہ کہ وہ خون بچہ کی غذا بن جاتا ہے ) یعنی حقیقت میں خونریزی اور ماہواری ہوتی ہی نہیں ہے جو بچہ کی خوراک بن سکے ۔ ھ: یہ تمام مذکورہ مراحل ، مختلف ہارمون کے مترشح ہونے کے ذریعہ کنٹرول ہوتے ہیں لہٰذاان ہارمونس کو کسی خاتون کو خوراک کے طورپر کھلا نے یا انجکشن کے ذریعہ سے دئے جائیں تو بھی وہ خاتون حائض نہیں ہوسکتی یعنی اس طرح سے اسکو ماہواری نہیں آسکتی ، تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خون بچہ کیغذا بن جاتا ہے ۔ ؟جواب: مقصود یہ نہیں ہے کہ رحم سے خونر یزی ہوتی ہے جس کو بچہ نگل لیتا ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حاملہ ہونے کی صورت میں ، خون ماں (حاملہ) کی رگوں میں ذخیرہ ہوجاتا ہے اور جفت وغیرہ کے ذریعہ،جنین کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور وہ آکسیجن اور خوراک کو بچہ ، اپنی ماں کے اسی خون سے حاصل کرتا ہے ، جیسا کہ بچہ کو دودھ پلانے کے زمانے میں بھی اکثر اوقات ، ماہواری نہیں ہوتی ، اس لئے کہ خون کا کچھ حصہ ، دودھ میں تبدیل ہو کر ، بچہ کی غذا بن جاتا ہے ۔ لہٰذ ااگر ہم کہیں کہ وہ خون ،بچہ کی غذا ہے ، تو مقصود یہ ہے ہم نے بیا ن کیا ہے وہ نہیں جو آپ نے تحریرکیا ہے ۔
جواب: کوئی حرج نہیں ، غسل کرسکتی ہے ، غسل جنابت کرنے سے جنابت سے وہ پاک ہوجائے گی ، نیز مستحبی غسل بھی کرسکتی ہے ۔
جواب: تقریباً جنین کی لانہ سازی کے تین ہفتے کے بعد جفت تشکیل پاتا ہے ، اس مرحلہ میں جفت کا وظیفہ رحم کی ضخیم شدہ دیوار سے، بند ناف کے ذریعہ ، خوراک اور آکسیجن، حاصل کرنا ہے ۔اسی طرح جنین کی حیاتی فعالیت سے حاصل شدہ ، کاربنک گیس کو ماںکے خون میں منتقل کرتا ہے اور ا س بطن مادر میں موجود جفت کا دوسرا وظیفہ، مادری ماہا رمون یاپرجسترون کو مترشح کرنا ہے ، جس سے ماہواری بند ہوجاتی ہے ۔ د:اگر حاملہ نہ ہوسکے، تورحم کی پر خون اور ضخیم شدہ دیوار گرنا اوربہنا شروع ہوجاتی ہے ، جو ماہواری کے نام سے مشہور ہے ، خون بند ہوجانے کے بعد ، رحم دوبارہ نئے طریقہ سے استقرار حمل کے لئے تیار ہوجاتا ہے یعنی پُرخون اور ضخیم ہونا شروع ہوجاتا ہے لہٰذا جب ایک عورت حاملہ ہو جاتی ہے ، تو ہارمون کے مترشح ہونے کی وجہ سے جس کا تذکرہ گزرچکا ہے، معمولاً اس عورت کو ماہواری نہیں آتی ، ( نہ یہ کہ وہ خون بچہ کی غذا بن جاتا ہے ) یعنی حقیقت میں خونریزی اور ماہواری ہوتی ہی نہیں ہے جو بچہ کی خوراک بن سکے ۔ ھ: یہ تمام مذکورہ مراحل ، مختلف ہارمون کے مترشح ہونے کے ذریعہ کنٹرول ہوتے ہیں لہٰذاان ہارمونس کو کسی خاتون کو خوراک کے طورپر کھلا نے یا انجکشن کے ذریعہ سے دئے جائیں تو بھی وہ خاتون حائض نہیں ہوسکتی یعنی اس طرح سے اسکو ماہواری نہیں آسکتی ، تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خون بچہ کیغذا بن جاتا ہے ۔ ؟جواب: مقصود یہ نہیں ہے کہ رحم سے خونر یزی ہوتی ہے جس کو بچہ نگل لیتا ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حاملہ ہونے کی صورت میں ، خون ماں (حاملہ) کی رگوں میں ذخیرہ ہوجاتا ہے اور جفت وغیرہ کے ذریعہ،جنین کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور وہ آکسیجن اور خوراک کو بچہ ، اپنی ماں کے اسی خون سے حاصل کرتا ہے ، جیسا کہ بچہ کو دودھ پلانے کے زمانے میں بھی اکثر اوقات ، ماہواری نہیں ہوتی ، اس لئے کہ خون کا کچھ حصہ ، دودھ میں تبدیل ہو کر ، بچہ کی غذا بن جاتا ہے ۔ لہٰذ ااگر ہم کہیں کہ وہ خون ،بچہ کی غذا ہے ، تو مقصود یہ ہے ہم نے بیا ن کیا ہے وہ نہیں جو آپ نے تحریرکیا ہے ۔