سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

گداؤں (بھکاریوں) کے مال ودولت

اس چیز کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ بهیکاریوں کے ساتھ جرم کے عنوان سے کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی، بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پورے شہر میں فقیر اور تہی دست کے عنوان سے بھیک مانگتے ہیں، لوگ بھی ان کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے ہمدردی اور راٴفت کی رو سے ان کی مدد کرتے ہیں اور چونکہ ان فغقیروں کو اکھٹا کرنے پر ایک توافق انجام پایا ہے کہ جس کی ذمہ دار شہر داری اور انتظامیہ ہے اور ان کے ایک جگہ پر رکھنے کی ذمہ دار ”سازمان بہزیستی“ ہے کہ جس کا مرکز ہدایت (ہیڈکواٹر) کے نام سے مشہور ہے جتنی مدت یہ بھکاری لوگ اس مرکز میں ٹھہرائے جاتے ہیں اس مدت میں ان کو نہانے، دھونے، غذا لباس اور دیگر ضروریات زندگی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس سلسلے میں جناب عالی سے کچھ سوال مطلوب ہیں:۱۔ اس دستور العمل کے مطابق جو ”بہزیستی سازمان“ سے مراکز کو بھیجا گیا ہے، ہر فقیر کی سکونت کا ایک رات ایک دن کا خرچ ۱۵۰۰۰(پندرہ ہزار)ریال ہے جو ان سے لیا جائے گا ۔ کیا اتنا پیسہ لینا جائز ہے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس سے زیادہ لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ (قابل ذکر ہے کہ یہ پیسہ اُن پر یا دوسرے گداؤں پر خرچ ہوتا ہے)۲۔ بعض گدالوگ محجور ہیں اور ان کی قوہ عاقلہ زائل ہوگئی ہے اور ان میں سے بہت سےبہت زیادہ دولتمند ہیں اور کچھ کے گھر والوں کی ہم کو کوئی خبر نہیں ہے، اور چونکہ ہم ان کو ہمیشہ تو اپنے پاس رکھ نہیں سکتے، لہٰذا مجبور ہیں کہ ان کو چند روز بعد ان کے شہر اور محل سکونت میں پہنچادیں،لیکن ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ یہ اپنا پیسہ نہ کھو بیٹھیں ، کیا جائز ہے کہ ان سے پیسہ لے لیا جائے اور ”سازمان بہزیستی“ کے سپرد کردیا جائے تاکہ تمام مستحقین اور قابل امداد کہ جو اس مرکز کے تحت ہیں ان پر صرف کیا جائے؟

اوّلاً: اس چیز پر توجہ رکھتے ہوئے کہ یہ مسئلہ شرعی نظر سے پیچیدہ ہے، لہٰذا اس میں احتیاط اور باریک بینی سے عمل کیا جائے تاکہ آپ خلاف شرع کے مرتکب نہ ہوجائیں ۔ثانیاً: گداؤں کا وہ گروہ جس کے پاس زیادہ دولت اوزر ثروت ہے ان کے اموال مجہول المالک کے زمرہ میں ہیں، فقط ان کے ایک سال کے خرچ کے علاوہ اضافی پیسے کا دوسرے فقیر پر خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور وہ گدا جس کے پاس پیسہ کم ہے وہ سب کا سب انھیں کا مال ہے اور ان کے خرچ کے لئے اس پیسے سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک دن کا خرچ مبلغ۰ ۱۵۰۰(پندرہ ہزار)ریال ان خدمات کے عوض ان سے لینا جو اُن کو دی جاتی ہیں بہت زیادہ ہے، مگر یہ کہ وہ مریض ہوں اور ان کو دن رات میں اتنی مقدار کی ضرورت ہو ۔ثالثاً: وہ گدا جو بہت زیادہ لاغر ہیں اور کام نہیں کرسکتے ان کے اموال کو دوسروں پر خرچ نہ کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ سال گذر جانے کے بعد بھی اسی چیز کا شکار ہوں گے ۔

دسته‌ها: بهیک مانگنا

ولی فقیہ کی بحث وگفتگو کے عملی ہونے سے مراد کیا ہے

استفتاء میں جو فتویٰ ولایت فقیہ کے سلسلے میں دریافت کیا گیا ہے، آپ نے اس کے جواب میں فرمایا ہے: ”علمی مسائل میں سے ہے“ (یعنی ولایت فقیہ علمی مسائل میں سے ہے) مسائل علمی سے کیا مراد ہے؟ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ولایت فقیہ ، امامت کی ایک شان اور حصّہ ہے کیا یہ بحث علم کلام یعنی عقائد سے مربوط نہیں ہوتی؟

اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ولایت فقیہ یعنی فقیہ کے ہاتھ میں حکومت ہونا ہے اور حکومت کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ لوگوں کو ان کے مطابق عمل کرنا چاہیے، لہٰذا ولایت فقیہ عملی پہلو ہوجاتاہے، یہاں تک کہ امام علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں بعض حصّہ عقیدتی پہلو کا حامل ہوتا ہے اور ولایت کا بعض حصّہ (جو حکومت سے مربوط ہوتا ہے) عملی پہلو رکھتا ہے ۔

دسته‌ها: ولایت فقیه

خبر اور تبلیغ کے درمیان حد

اسلام میں خبر اور تبلیغ کے درمیان حدّفاصل کیا ہے؟

فقہ اسلامی میں ان دونوں موضوعوں کے لئے کوئی خاص اصطلاح نہیں ہے ۔ اگر فقہاء کے کلمات میں استعمال ہوتو اس کے وہ ہی عرفی اور عام فہم معنی ہیں ۔ خبر کسی واقعیت کو بیان کرتی ہے، لیکن تبلیغ کسی کام کی تشویق یا ترغیب کے مقصد سے انجام دی جاتی ہے ۔

دسته‌ها: خبر

کافروں کو سود دینا اور ان سے سود لینا

اسلامی بینک اور کافروں کو سود دینے یا لینے کا کیا حکم ہے؟

جواب۔غیر اسلامی بینک اور کافروں سے سود لینا جائز ہے لیکن انہیں سود دیناجائز نہیں ہےمگر ضرورت کی ضرورت کی صورت میں جبان سے قرض لینا باعث عسر و حرج یا اس طرح کے ممالک میں مسلمانوں کی کمزوری اور ذلّت کا سبب ہو جائے۔

دسته‌ها: عزاداری

”مقدسات اسلامی“ کی عبارت کی اسلامی قانون میں وضاحت

اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض قوانین میں ”مقدسات اسلامی“ کی عبارت کو استعمال کیا گیا ہے اور اس پر کچھ احکام بار ہوئے ہیں ان قوانین کو واضح ہونے کی اور سماجی سیاست میں ایک صاف وشفّاف حدود کو معین کرنے کے لئے اور افراط وتفریط سے پرہیز کی خاطر، مہربانی فرماکر نیچے دیئے گئے سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:الف) ”اسلامی مقدسات“ کی کیا تعریف ہے؟ کیا اس کے لئے کوئی میزان معین کیا جاسکتا ہے اور اختلافی مصادیق کو اس میزان پر تولا جاسکتا ہے؟ب) کیا ”مقدسات اسلامی“ کو تشخیص دینے کا ذریعہ، عرف(معاشرہ) ہے اور اہل عرف کے وجدان کی طرف مراجعہ کرنے سے اس کے مصادیق کو پہچانا جاسکتا ہے، یا وہ ایسے امور میں سے کہ جس کی شناخت ماہرین اور اہل خبرہ کا کام ہے؟ واضح ہے کہ پہلی صورت میں مقدسات اسلامی کی تشخیص کے لئے منصفہ کمیٹی کی حیثیت، عمومی افکار کے نمائندہ کے عنوان سے ہوگی جبکہ دوسری صورت میں اس کی تشخیص ماہرین کے ذمہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دوسری صورت میں اگر ماہرین کے درمیان موضوع کی تشخیص میں اختلاف ہوجائے تو ایسی صورت میں کیا تکلیف ہوگی؟ج) کیا قرآن وعترت اطہار علیہم السلام کی تعلیمات اور احکام، آئمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت پر تنقید کرنا توہین کے مصادیق میں سے ہے؟ کیا علمائے دین کے درمیان رائج طریقے کے علاوہ آیات، روایات، سیرت اور فقہی احکام کا تنقیدی جائزہ لینا ایک طرح کی اہانت ہے؟ بہر صورت نقّاد کی سوء نیّت یا اس کا اہانت کا قصد نہ ہونا، اس امر میں کیا اثر رکھتا ہے؟

جواب:الف: البتہ ”مقدسات اسلامی“ کی عبارت، ہر کلام میں موجود قرائن کے لحاظ سے ایک خاص تشریح اور وضاحت کی محتاج ہوتی ہے؛ لیکن معمولاً جب یہ عبارت استعمال ہوتی ہے تو ان امور کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو تمام دینداروں کی نظر میں محترم ہوتے ہیں؛ جیسے ”خدا“ ، ”آئمہ ھدیٰ علیہم السلام“، ”قرآن شریف“، ”مساجد“، ”خانہ کعبہ“، ”اسلام کے مسلّم احکام“، اور انھیں کی جیسی دوسری چیزیں، ممکن ہے کچھ جگہوں پر مقدسات اسلامی کے معنی اس سے بھی زیادہ وسیع ہوں ۔جواب:ب: موضوع کی تشخیص دینے والے افراد معاشرے کے دیندار لوگ اور مسائل اسلامی سے اشنا افراد ہیں اور ممکن ہے کہ پیچیدہ موارد میں دانشوروں اور دینی علماء کی نظر کی بھی ضرورت ہو۔جواب:ج: اگر تنقید سے مراد قانون اور قانون بنانے والے پر اعتراض ہو تو بے شک یہ توہین کے مصادیق میں سے ہے، اور اگر اس سے مراد ان افراد پر اشکال اور اعتراض ہو جنھوں نے ایسے احکام کو استنباط کیا ہو یا دوسرے لفظوں میں کسی کا استنباط زیر سوال جائے نہ کہ حکم الٰہی، تو مقدسات اسلامی کی اہانت کے مصادیق میں سے نہیں ہوگا۔

بنیادی قانون میں ”مبانی اسلام میں اخلاق “ کی عبارت کی تشریح

اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی دفعہ نمبر ۲۴ کو مدنظررکھتے ہوئے کہ جس میں اس طرح بیان ہوا ہے: ”نشریات اور مطبوعات، مطالب کو بیان کرنے میں آزاد ہیں، مگر یہ کہ اس سے اسلام کے مبانی یا عمومی حقوق میں خلل واقع ہو“ لہٰذا حضور فرمائیں:الف) ”اخلال“ اور ”اسلام کے مبانی“ سے کیا مراد ہے؟ کیا اسلام کے مبانی کے معنی اسلام کے بنیادی احکام ہیں، یا اس سے ضروریات دینی یا ضروریات فقہی مراد ہے، یا اس کے کوئی اور معنی ہیں؟ب) کیا سوال ایجاد کرنا یا مسائل اسلامی سے جدید چیز نکالنا اخلال شمار ہوتا ہے؟ج) علمی اور تخصصی رسالوں میں سوال ایجاد کرنے یا حدید چیز کے نکالنے میں اور ان کا عمومی نشریات میں نشر میں کوئی فرق ہے؟

جواب: الف :”اسلام کے مبانی“ سے مراد دین کے ضروری مسائل ہیں چاہے وہ اعتقادی مسائل ہوں جیسے توحید، معاد، قیامت عصمت انبیاء وآئمہ علیہم السلام اور اسی کے مانند دوسری چیزیں، چاہے فروع دین اور اسلام کے قوانین اور احکام ہوں، اور چاہے اخلاقی اور اجتماعی مسائل ہوں ۔اور ”اخلال“ سے مراد ہر وہ کام ہے جو مذکورہ مبانی کی تضعیف یا ان میں شک وتردید ایجاد کرنے کا سبب ہو، چاہے وہ مقالہ لکھنے کی وجہ سے یا داستان، یا تصویر بنانے کے ذریعہ ہو یا کارٹون یا ان کے علاوہ کسی اور چیز سے ۔جواب:ب : اگر سوال پیدا کرنے سے مراد اس کا جواب حاصل کرنا ہے تو اخلال نہیں ہے، لیکن اگر اس سے مراد افکار عمومی میں شبھہ ایجاد کرنا ہو تو اخلال شمار ہوگا اور جدید چیز نکالنے سے مراد، اگر فقط ایک علمی احتمال کو بیان کرنا ہو تاکہ اس پر تحقیق اور مطالعہ کیا جائے تو اخلال نہیں ہے؛ لیکن اگر قطعی طور سے اس پر تکیہ کیا جائے یا اس کو اس طرح نشر کیا جائے کہ جو اسلام کے ضروریات کے مخالف ہو تو مبانی میں اخلال شمار ہوگا۔جواب: ج : بے شک ان دونوں میں فرق ہے، عمومی نشریات میں نشر کرنا ممکن ہے کہ مبانی اسلام میں اخلال کی صورت اختیار کرلے، لیکن خصوصی نشریات میں یہ صورت پیدا نہیں ہوتی۔

دسته‌ها: آموزش و پرورش

خود کشی سے مربوط احکام

افسوس کہ کچھ سالوں سے ہمارے شہر میں خود کشی بڑی عام ہوگئی ہے اور کچھ جوان اس بُرے کام کا اقدام کرتے رہتے ہیں لیکن اگر ایسا ہوجائے کہ اس کا شرعی پہلو اور اس کے معاشرتی نقصانات کو اس سن کے افراد کے لئے تشریح اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے تو ان میں سے بہت کچھ افراد اس عمل سے باز آجائیں گے اور اس کی طرف ان کی سوچ تک بھی نہ پہنچے گی، اس موضوع پر عنایت رکھتے ہوئے، مہربانی فرماکر نیچے دیئے گئے کچھ سوالوں کے جواب مرقوم فرمائیں:الف) قتل نفس کا شرعی حکم کیا ہے؟ب) اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انسان کا بدن خود اس کا بدن ہے نہ کسی دوسرے کا اور اس کی ذمہ داری خود اسی کی طرف پلٹتی ہے تو پھر خود کشی کیوں حرام ہے؟ج) جو افراد اپنے کو قتل کرتے ہیں ان کا عالم برزخ میں کیا حال ہوگا؟د) جو شخص خود کشی کرتا ہے، کیا خداوندعالم کی عدالت میں اس کا برا اثر اس کے والدین پر بھی پڑے گا؟ھ) ایسے اشخاص کا مومنین کے قبرستان میں دفن کرنا اور ان کے لئے سوگ کی مجالس برپا کرنا کیسا ہے ؟و) بہت سی جگہوں میں متوفی کا غمزدہ اور داغدار گھر اس بہانہ کے ساتھ کہ یہ کام عام اور طبیعی حالات میں انجام نہیں پایا ہے، اس کے لئے طبیعی موت والے سارے رسوم وآداب انجام دیتے ہیں، کیا ان کا یہ عمل صحیح ہے؟ز) وہ اشخاص جو خودکشی کرتے ہیں کیا اہل بیت علیہم السلام کی شفاعت ان کے شامل حال ہوگی؟ح) معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں کیا خداوندعالم کی بارگاہ میں خود کشی کرنے والوں کے بخشے جانے کا کوئی احتمال ہے؟

جواب: الف سے ح تک: یقیناً خودکشی گناہ کبیرہ ہے اور انسان کا اپنے نفس کا مالک ہونا خودکشی کی دلیل نہیں بن سکتا، ایسے ہی جیسے کہ انسان کا اپنے اموال کا مالک اس میں آگ لگانے کی دلیل نہیں ہوسکتا ہے البتہ ایسے اشخاص کے لئے تمام رسومات دیگر عام مسلمانوں کی طرح انجام دیئے جائیں اور ان کی نجات کی دعا کی جائے شاید عفو الٰہی ان کے شامل حال ہوجائے ۔

دسته‌ها: خود کشی
پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
سامانه پاسخگویی برخط(آنلاین) به سوالات شرعی و اعتقادی مقلدان حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی
آیین رحمت - معارف اسلامی و پاسخ به شبهات کلامی
انتشارات امام علی علیه السلام
موسسه دارالإعلام لمدرسة اهل البیت (علیهم السلام)
خبرگزاری دفتر آیت الله العظمی مکارم شیرازی