اس مال کی چوری جس کو مالک کی اطلاع کے بغیر حرز میں رکھا گیا ہو
چوری کی حد جاری کرنے کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مال حرز میں ہوتو آپ فرمائیں:الف) اگر بیٹا، دوست، پڑوسی، نوکر یا کوئی اور شخص صاحب مال کی اطلاع یا بغیر اطلاع کے مال کو حرز میں رکھ دے، کیا دوسرے شرائط کے ہوتے ہوئے ایسے مال کا اٹھالینا اس چوری میں شمار کیا جائے گا جس پر حد جاری کرنا لازم ہے؟ب) اگر مالک کی دخالت اور اطلاع کے بغیر مال حرز میں رکھا جائے اور چوری ہو جائے، کیا دیگر شرائط کے ہوتے ہوئے سزا والی چوری کا حکم رکھتی ہے؟ مثلاً اگر کوئی حیوان بغیر مالک کی اطلاع کے احاطے میں چلاجائے اور احاطے کا دروازہ بند ہوجائے پھر کوئی حیوان کو لے جائے کیا سرقت حدی شمار ہوگی؟ یا مثلاً کسی شخص کو کوئی مال مل جائے وہ اس کو حرز میں رکھ دے اور یہ مال چوری ہوجائے، اس کا کیا حکم ہے؟ج) اگر صاحب مال، ما ل کو حرز میں نہ رکھے اور حرز میں رکھنے پر راضی بھی نہ ہو اور مال چوری ہوجائے، کیا دوسرے تمام شرائط کے ہوتے ہوئے حد قطع (انگلیوں کا کاٹنا) جاری ہوگی؟
جواب: چنانچہ صاحب مال کے حکم یااطلاع سے حرز میں رکھا گیا ہوتو سزا والی چوری شمار ہوگی اور اس کی عدم اطلاع کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ حد جاری نہ کی جائے۔جواب: جاری نہیں ہوگی۔
چور کے کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑ نا
چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد، کیا چور، اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو طبّی مدد کے ذریعہ جڑوا سکتا ہے؟
فقہ کے ”قصاص کے باب“ میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ اگر کٹے ہوئے کان کو دوبارہ اس کی پہلی جگہ جوڑدیا جائے اور وہ جُڑ بھی جائے، تو مجنی علیہ (جس کا اس نے کان کاٹا یا نقصان پہنچایا تھا) دوبارہ کاٹ سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس کے جیسا ہوجائے، اس سلسلہ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہوئی ہے جس کی سند، معتبر ہے یا کم از کم علماء شیعہ نے اس کے مطابق عمل کیا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات سے صزف نظر کرتے ہوئے اور باب حدود میں بھی اس کو سرایت دیتے ہوئے (مذکورہ حکم) مشکل ہے لیکن چور کے ہاتھ کاٹنے والی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوبارہ جوڑنا جائز نہیں ہے، خصوصاً یہ کہ علل وعیون میں امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے: ”وعلّة قطع الیمین من السارق لانّہ تباشر الاشیاء (غالباً) بیمینہ وھی افضل اعضائہ واٴنفعُھا لَہُ فجعل قطعھا نکالاً وعبرة للخلقِ لئِلّا تبتغوا اٴخذ الاموال من غیر حلّھا ولِانّہ اکثر ما یباشر السرقة بیمینہ“ اور یہ مطلب دوبارہ ہاتھ جُڑوانے سے، مناسب اور سازگار نہیں ہے، دوسری حدیث میں آیا ہے: ”عن النّبی صلی الله علیہ وآلہ: اِنّہ اٴتیٰ بسارق فَاٴَمرَ بہ فقطعت یدہ ثمّ علقت فی رقبتہ“ ۱.۱۔ جواہر، ج۴۱، ص۵۴۲؛ سنن بیہقی، ج۸، ص۲۷۵.
جس کا مال گیا ہے اس کی طرف سے سزا کا تقاضا ہونا
چور پر چوری کی حد (سزا) جاری کرنے کے سلسلے میں، اس کے تمام شرائط کے علاوہ کیا اس کی طرف سے، جس کا مال چورایا گیا ہے، تقاضا ومطالبہ کرنا بھی لازم ہے، یا حاکم شرع کے پاس فقط شکایت کرنے سے حد کا اجرا کرنا واجب ہے البتہ جب دوسرے تمام شرائط موجود ہوں، ؟
اس کا شکایت کرنا کافی ہے اور تقاضا یا مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
جس کا مال گیا ہے اس کی طرف سے سزا کا تقاضا ہونا
چور پر چوری کی حد (سزا) جاری کرنے کے سلسلے میں، اس کے تمام شرائط کے علاوہ کیا اس کی طرف سے، جس کا مال چورایا گیا ہے، تقاضا ومطالبہ کرنا بھی لازم ہے، یا حاکم شرع کے پاس فقط شکایت کرنے سے حد کا اجرا کرنا واجب ہے البتہ جب دوسرے تمام شرائط موجود ہوں، ؟
اس کا شکایت کرنا کافی ہے اور تقاضا یا مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ایسی عورت جو کسی مرد کو زنا پر مجبور کرے
چنانچہ کوئی عورت کسی مرد کو، اسلحہ یا کسی دوسری چیز کے ذریعہ، دھمکی دے کہ اگر اس کے ساتھ زنا نہ کرے گا تو اسے ایسے ایسے کردوں گی اور وہ مرد واقعاً مجبور ہوجائے، کیا اس پر مُکرہ اور مجبور کا حکم لگے گا؟
مسئلہ کے فرض میں، جبراً اور زور زبردستی والے زنا کا حکم جو سزائے موت ہے، عورت کے بارے میں جاری نہیں ہوگا، فقط اس کی حد (سزا) جاری ہوگی (سنگسار یا کوڑے جیسا مورد ہوگا ویسی ہی سزا دی جائے گی
رخصتی (شادی) سے پہلے کے زنا کی حد (سزا)
چنانچہ کوئی شخص، نکاح کے بعد لیکن رخصتی سے پہلے، زنا کرے، کیا کوڑوں کے علاوہ، جلاوطن کرنا اور ان کے بال چھوٹے کرنا بھی لازم ہے؟جواب کے مثبت ہونے کی صورت میں، دخول پر قادر ہونے یا قادر نہ ہونے کا بھی کوئی اثر ہوگا؟
سر مونڈھنا اور جلاوطن کرنا، لازم ہے اور دخول پر قادر ہونے کی شرط نہیں ہے مگر بیوی، طویل مدّت تک شوہر کے مجبور کرنے کی وجہ سے، شوہر سے جدا رہی ہو ۔
لوٹے ہوئے شخص کی طرف سے رپورٹ سے کئے بغیر چوری کے مال کا برآمد ہونا
چنانچہ قاضی کے پاس، مسروقہ مال کے مالک کی شکایت کرنے سے پہلے، چوری کے مال کو پولیس چور سے، وصول اور ضبط کرکے، مال کے مالک کو واپس دینے کی غرض سے اپنے پاس محفوظ رکھے کہ جب بھی مالک تقاضا و مطالبہ کرے اس کا اس کے حوالہ کردیا جائے لیکن مالک اس بات کو جانتے ہوئے بھی، اپنا مال وصول کرنے سے پہلے، قاضی کے یہاں شکایت کردے، کیا اس صورت میں بھی چور کی حد کا جاری کرنا واجب ہے؟
چوری کی حد، اس صورت میں جاری نہیں ہوگی اور ایسا ہی اس صورت میں ہوگا جب جیسے مال اس کے مالک کے ہاتھ میں پہنچ گیا ہو ۔
حد مساحقہ کو جاری کرنے کی کیفیت
مساحقہ کی حد کو جاری کرنے کی کیفیت کیا ہوگی مثلاً کوڑے مارنے کے طریقے کی حیثیت سے، معمولی لباس ہونے یا نہ ہونے کی حیثیت سے یا کوڑے لگانے میں شدت وضعف کی حیثیت سے؟
جواب: حد زنا کی طرح ہے، بیٹھے ہوئے اور لباس کے ساتھ۔
اس محارب کے اوپر حد کو جاری کرنے کی کیفیت جو ایک پاؤں یا ایک ہاتھ سے محروم ہو
محارب کے سلسلے میں نیچے دئےے گئے فرضوں میں اپنا شریف فتویٰ مرقوم فرمائیں:۱لف: اگر محارب ایک ہاتھ یا ایک پاؤں نہ رکھتا ہو ، کیا حاکم شرع قطع کی سزا انتخاب کرکے موجودہ عضو کے قطع پر اکتفا کرسکتا ہے ، یا اس کو چاہےئے کہ غیر قطع کی سزاؤں کا انتخاب کرے؟ب: اگر حاکم شرع، قطع کا حکم دے اور حکم کے جاری کرنے سے پہلے اس کے دونوں عضو یا ایک عضو مرجائے ، کیا حد ساقط ہوجاتی ہے ، یا ضروری ہے کہ محارب کی دوسری سزاؤں پر عمل ہو؟ اگر محارب کا ایک عضو قطع شدہ ہو تو کےا دوسرے عضو کے قطع پر اکتفا کی جائے گی ؟
جواب: چنانچہ قاضی ہاتھ پاؤں کاٹنے یا دوسری سزاؤں کے انجام کے درمیان مخیر ہو، تو اس کو دوسری سزاؤں کا انتخاب کرنا چاہئے اور اگر ایسا نہ ہو تو موجودہ عضو کو ہی کاٹ دے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد کافر زانی کا توبہ کرنا
فقہاء امامیہ کے مشہور نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ”اگر کافر ذمّی مسلمان عورت کے ساتھ زنا کرنے کے بعد اسلام لے آئے تب بھی حد ساقط نہیں ہوتی ہے“ تو حضور فرمائیں: کیا اس نظریہ کی بنا پر ، اس کے اسلام قبول کرنے کے بعد توبہ، کرنے سے حد ساقط ہوجائے گی، یا اس کو معاف کرنا حاکم شرع کے اختیار میں ہے؟
جواب: اگر اس کا گناہ اس کے اقرار سے ثابت ہوا ہو تو اس صورت میں حاکم شرع توبہ کے بعد اس کو معاف کرسکتا ہے۔