سوالات کو بہت مختصر، کم سے کم لاین میں بیان کریں اور لمبی عبارت لکھنے سے پرہیز کریں.

خواب کی تعبیر، استخارہ اور اس کے مشابہ سوال کرنے سے پرہیز کریں.

captcha
انصراف
انصراف
چینش بر اساس:حروف الفباجدیدترین مسائلپربازدیدها

خمس نہ دینے والے باپ کے مال میں تصرف کرنا

میرے والد دینی مسائل کے زیادہ معتقد نہیں ہیں ، فقط روزہ ونماز بجالاتے ہیں وہ بھی سرسری طور سے، لیکن بقیہ واجبات جیسے خمس وزکات وغیرہ کی پرواہ نہیں کرتے، میں نہیں چاہتا کہ ان کا پیسہ میری زندگی کے مسائل میں داخل ہو، لیکن میری مدد کرنے پر مصر ہیں ، مہربانی فرماکر اس سلسلے میں نیچے دیئے گئے چند سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:۱۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ نیز ان کے یہاں کھانا کھانا کیسا ہے؟۲۔ اب تک انھوں نے جو رقم مجھے دی ہے اس نے مجھے ان کا اور زیادہ محتاج بنا دیا ہے، حضور کی رائے میں یہاں پر میرے لئے کیا کام مناسب ہے؟۳۔ فروع دین پر عمل نہ کرنا اصول دین پر اعتقاد نہ رکھنے کا عملی ثبوت ہے ان (میرے والد) سے میل جول رکھنا مجھے دین، حلال، حرام اور واجبات کی طرف سے لاپرواہ کرتا ہے، میں کس طرح انھیں اس مطلب کو سمجھاوٴں کہ وہ ناراض نہ ہوں اور میری طرف سے حجت بھی تمام ہوجائے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ میرے والدبہت زیادہ محبّت کرنے والے شخص ہیں ذراسی بات پر ناراض ہوکر رونے لگتے ہیں؟

آپ ان کے پیسے کو استعمال کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس کے خمس کو ادا کریں ۔باپ کا محتاج ہونا کوئی مہم نہیں بات ہے، کوشش کریں کہ اچھے اخلاق اور مودّبانہ طریقے سے اپنے والد کو راہ راست پرلے آئیں ۔کوشش کریں کہ آہستہ آہستہ تواضع، انکساری، بردباری اور خوش زبانی سے ان کے دل میں جگہ بنائیں اور ہرگز مایوس نہ ہوں، دھیان رہے کہ اُن کو خلوت میں تذکر دیں ، نہ کہ سب کے سامنے، اور یہ کام خیراندیشی کی صورت میں ہو نہ کہ تنقید اور دشمنی کی صورت میں ، یہ بھی جان لیں کہ فروع دین پر عمل کرنے میں لاپرواہی کرنا ہمیشہ اصول دین پر عدم ایمان کی دلیل نہیں ہوتا ۔

دسته‌ها: مختلف مسائل

رقوم شرعیہ میں قرض کے عنوان سے تصرف کرنا

صدقہ، کفارہ، زکات اور خمس وغیرہ کی رقم کو بطور قرض لینے اور پھر اس کو پلٹانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ وہ پیسہ جو انسان کے پاس امانت ہے اس کا کیا حکم ہے؟

اگر پیسہ کا مالک کسی رقم کو صدقہ یا خمس کے عنوان سے الگ کردے، اس میں تصرف کرسکتا ہے؛ لیکن اسے کسی کی امانت میں تصرف کا حق نہیں ہے ۔

دسته‌ها: مختلف مسائل

ٹیکس اور رقوم شرعیہ کی حدود

بہت سی نشستوں میں یہ بحث ہوتی ہے: کیا اسلامی حکومت میں ٹیکس (جبکہ کبھی اس کو زیادہ فی صد کے حساب سے لیا جاتا ہے) خمس وزکات کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر وہ ان کی جگہ نہ لے سکے تو ان لوگوں کے لئے جو خمس وزکات کے پابند ہیں کوئی راہ نکالی جاسکتی ہے تاکہ انھیں کم ٹیکس (کم سے کم ادا شدہ خمس وزکات کے برابر) ادا کرنا پڑے خصوصاً اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹیکس اور رقم وصولی کے دفتر پر ایک فقیہ جامع الشرائط حاضر وناظر ہوتا ہے؟

مہم مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس ایک طرح کا اقتصادی خرچ ہے یعنی جو شخص اقتصادی فعالیتوں میں مشغول ہے وہ راستوں اور سڑک وغیرہ سے استفادہ کرتا ہے، امنیت سے فائدہ اٹھاتا عمومی ذرائع ابلاغ سے مدد لیتا اور ان کے علاوہ دیگر سہولیات سے بہرہ مند ہوتا ہے، اگر یہ سہولیات نہ ہوتیں تو اقتصادی کام یا تو ممکن ہی نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو ان میں بہت کم فائدہ ہوتا، لہٰذا اس کا وظیفہ ہے کہ رفاہ عامّہ میں خرچ ہوئے حکومت کے پیسے میں سے جو اس کے اقتصادی کاموں میں موٴثر ہیں کچھ حصّہ کو خود بھی ادا کرے اور یہ ایک فطری بات ہے اب اگر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچے تو اس کے اوپر خمس بھی نہیں ہے ۔اور اگر کچھ بچ جاتا ہے تو اس میں ۸۰فیصد خود اس کا ہے اور جو ۲۰فیصد خمس ہے تو وہ عمدہ طور سے حالیہ زمانہ میں تہذیب کلچر عقائد اور دیگر اقدار کی حفاظت میں خرچ ہوتا ہے جس کا فائدہ بھی لوگوں کو ہی پہنچتا ہے، کیونکہ اگر دینی مدارس نہ ہوں تو آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہوجائیں گی، اسی وجہ سے بنیادی طور پر ٹیکس کی حدود کو رقوم شرعیہ کے ساتھ مخلوط نہ کرنا چاہیے ۔

دسته‌ها: مختلف مسائل