اعضاء بدن کو ہدیہ (ڈونیٹ) کرنے کی وصیت
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں یہ وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے جسمانی اعضائ،ضرورتمند بیماروں کو دیدئے جائیں، کیا اس کے وارث اس کام سے روک تھام کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: وارثوں کے منع کرنے کا اس مسئلہ میں کوئی اثر نہیں ہے اور اگر وہ جسمانی اعضاء بیماروں کی جان بچانے کے لئے ضروری ہوں، تو اس کے جسم کے مذکورہ اعضائے بدن کو حاصل کرنا جائز ہے اسی طرح اگر کسی کے مہم عضو جیسے آنکھ کو بچانے کے لئے ضروری ہو۔
بغیر کسی مشکل کے انسان کا اپنے اعضاء ہدیہ کرنا
الف۔ کیا کسی مسلمان کی جان بچانے کی خاظر انسان اپنا کوئی عضو اسے ھدیہ کر سکتا ہے؟ جبکہ عضو دینے کی صورت میں اس کی جان کو کوئی خطرہ بھی لاحق نہ ہو؟ب۔ کیا عضو دینے والا اس کے عوض میں پیسے لے سکتا ہے؟ج۔ اگر عضو دینے والے کے لیے خطرہ ہو مگر موت کا احتمال نہ ہو تو کیا اس صورت میں اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے جبکہ اس سے ایک مسلمان کی جان بچ سکتی ہے؟
جواب: الف۔ نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مستحسن اور قابل تعریف ہے اور ممکن ہے کسی صورت میں واجب بھی ہو جائے ۔ب۔ جائز تو ہے مگر بہتر یہ ہے کہ پیسے کو اجازت کے عوض میں لے، عضو کے عوض میں میں نہیں۔ج۔ جائز ہے ۔
اجنبی عورت کا تخمدان لگانا
اگر کسی عورت کا رحم (گردے کے پیوند کی طرح) کسی دوسری عورت کو حاملہ ہونے کے لیے لگایا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ الف۔ کیا اس کی دیت واجب ہے؟ ب۔ کیا رحم قابل فروخت ہے؟ ج۔ جس عورت کو دیا جا رہا ہے اس کی اولاد کا کیا حکم ہوگا؟ د۔ جس عورت کا رحم تھا اسے ماں کا حق ملے گا یا نہیں؟
جواب: اگر بہت اہم ضرورت کا تقاضا نہ ہو تو اس کام سے صرف نظر کرنا چاہیے لیکن اگر واقعا ضرورت ہو تو پیوند دینے اور اس کے بدن میں لگانے کے بعد وہ اس کے بدن کا حصہ ہوگا اور بچہ اس سے متعلق ہوگا اور اس فرض میں دیت بھی واجب نہیں ہے اور اس کی خرید و فروش جائز ہے، اگر چہ بہتر یہ ہے کہ پیسے کو اجازت کے عوض کے طور پر لیا جائے، عضو کے نہیں۔
گردے کی خرید و فروخت
طبی مقاصد کے لئے گردے کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟
جواب ۔طبیمقاصد کے لئے گردے کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ شخص کا گردہ لینے کی اجازت کے بدلے رقم لیں خود گردے کے بدلے نہیں
ڈاکٹر کا دیت سے بری ہو جانا
ایسی صورت جس میں داکٹر کے لیے سقط کرنا ضروری ہو، دیت کس کے ذمہ واجب ہوگی؟ کیا ڈاکٹر کے لیے پہلے سے شرط کر دینا ضروری ہے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور کیا یہ شرط اس کے بری الذمہ ہونے کے لیے کافی ہے یا وہ اس کی گردن پر باقی رہے گی؟
جواب: احتیاط یہ ہے کہ ڈاکٹر مریض یا اس کے اولیاء سے یہ شرط کر دے کہ دیت اس کے ذمہ نہیں ہوگی اور اگر اس نے یہ شرط نہیں کی تو دیت اسے ہی ادا کرنا پڑے گی۔ (احتیاط کی بناء پر)
ناقص و معیوب حمل کو سقط کرنا
اگر احتمال یا یقین ہو کہ پیدا پونے والابچہ معیوب یا ناقص ہوگا اور سقط کے بعد واجب دیت بھی ادا کر دی جائے تو اس صورت میں عمدا (جان بوجھ کر) سقط کرنے کا حکم ہے؟
جواب: اگر بچہ ابتدائی منزلوں میں ہو اور انسانی شکل میں پوری طرح سے نہ ہوا ہو اور اس کا اس حالت میں باقی رہنا والدین کے لیے شدید عسر و حرج کا باعث ہو تو ان شرائط کے ساتھ اسے سقط کیا جا سکتا ہے، البتہ احتیاط کے طور پر دیت ادا کی جائے گی۔
ناقص و معیوب حمل کو سقط کرنا
اگر احتمال یا یقین ہو کہ پیدا پونے والابچہ معیوب یا ناقص ہوگا اور سقط کے بعد واجب دیت بھی ادا کر دی جائے تو اس صورت میں عمدا (جان بوجھ کر) سقط کرنے کا حکم ہے؟
جواب: اگر بچہ ابتدائی منزلوں میں ہو اور انسانی شکل میں پوری طرح سے نہ ہوا ہو اور اس کا اس حالت میں باقی رہنا والدین کے لیے شدید عسر و حرج کا باعث ہو تو ان شرائط کے ساتھ اسے سقط کیا جا سکتا ہے، البتہ احتیاط کے طور پر دیت ادا کی جائے گی۔
استقرار حمل کے بعد حمل کا ضایع کرنا
کیا حمل ٹھرنے کے بعد اسے سقط کرانا جائز ہے؟
جواب: اگر کسی خطرہ کا یقین یا احتمال نہ ہو اور ماں کو شدید نقصان نہ پہچ رہا ہو تو جائز نہیں ہے اور دیت واجب ہے ۔
حمل کی حفاظت میں ماں کی کوتاہی
اگر ماں بچے کو سقط کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے لیکن وہ ضروری باتوں کی رعایت نہ کرے اور اس کی حفاظت میں کوتاہی کرے اور بچہ سقط ہو جائے تو کیا وہ حرام کی مرتکب ہوئی ہے؟
جواب: اگر اس نے بچہ کی حفاظت میں مطابق معمول عمل نہیں کیا ہے اور کوتاہی کی ہے تو وہ ذمہ دار ہے ۔