کسی ایک شہر میں طویل مدت تک قیام کرنا
اس شخص کی نماز کا کیا حکم ہے جو ایک شہر میں طولانی مدت تک رہاہے ؟
جواب:۔ اگر کسی جگہ طولانی مدت تک زندگی بسر کر ے تو وہ جگہ اس کے لئے وطن کے حکم میں ہوگی۔
جواب:۔ اگر کسی جگہ طولانی مدت تک زندگی بسر کر ے تو وہ جگہ اس کے لئے وطن کے حکم میں ہوگی۔
جواب:۔ بیوی کے ارادہ اور نیت سے مربوط ہے ، لہٰذا اگراسے امید ہوکہ شوہرکو واپس لے آئے گی تو ترک وطن میں شمار نہیں ہوگا ، اور اگر امیدنہ ہوتو خود بخود ترک وطن میں شمار ہوجائے گا۔
جواب:۔ اس طرح کی اقامتگاہیں ( دار الاقامہ) وطن کے حکم میں شمار ہوتی ہیں ۔
جواب:۔ یونیورسٹی کے دوسرے مرکز کے سلسلے میں اس کی نماز و روزہ قصر ہے ۔
جواب:۔ جاری تعلیم کا مقام وطن کے حکم میں ہے ، وہاں پر نماز روزہ کامل ہے ، اور دس دن کا قصد کرنا بھی ضروری نہیں ہے نیزاقامتگاہ سے قریب کی جگہوں پر مثلاً تین یا چار کلو میٹر تک جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
جواب: ۔ اگر اس کے اہل عیال ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں تو ان کی نما زکامل ہے۔
جواب:۔ اگر تحقیق کرنا ممکن ہو تو تحقیق کرے اور اگر تحقیق کرنے کی کوئی راہ نہیں ہے ، اور درمیانی فاصلہ بھی مشکوک ہے ( یعنی پتہ نہیں کہ شرعی مسافت کے برابر ہے یا کم تو اس صورت میں نماز کو کامل بجا لائے۔
جواب:۔ دونوں صورتوں میں ، احتیاط واجب کی بناپر دوبارہ بجالائے۔
ایسا شخص کثیر السفر اور اس کی نماز و روزہ پورا ہے ۔کام سے مربوط مسافرت کے علاوہ میں اس کی نماز اور روزہ قصر ہے ۔اگروہ سفر زیادہ طولانی نہ ہو تو اس کے کثیر السفر ہونے کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا ۔
جواب:۔ اگر رفت و آمد ہمیشہ جاری ہے تو نماز کامل پڑھے اور روزہ رکھے۔
جواب:۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ بڑے یاچھوٹے شہر میںکوئی فرق نہیں ، بلکہ بلاد کبیرہ و صغیرہ ، مسافر کے احکام میں برابر ہیں ، مگر یہ کہ شہر اس قدر بزرگ اور وسیع ہو کہ اس کا ہرمحلہ ایک الگ اور مستقل شہر شمار ہوتا ہو جیسے شمیر ان اور شہر رَی کہ تہران سے ملے ہونے کے باوجود، مستقل شہر کا درجہ رکھتے ہیں ، لیکن دیگر محلہ ، تہران کا حصہ شمار ہوتے ہیں اور ان محلوں میں جو مستقل شہر کا درجہ رکھتے ہیں اگر ان کا در میانی فاصلہ ،قصر ہونے کی حد تک ہو تو نماز قصر ہے ، ورنہ نماز کا مل ہے اور مسافت کا معیار شہر کے آخری گھر ہیں ۔
جواب:۔ یہ خود بخود وطن ترک ہونے کا مصداق ہے، اور بچے جب تک اس کے ساتھ ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے ۔