قدامت پسند کے معنی
حضور کی نظر میں متحجر (قدامت پسند) کسے کہا جاتا ہے؟
معمولاً یہ لفظ ایسے شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو مسائل شرعیہ میں حالات اور زمان ومکان کی تاثیر کو درک نہیں کرتا۔
معمولاً یہ لفظ ایسے شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو مسائل شرعیہ میں حالات اور زمان ومکان کی تاثیر کو درک نہیں کرتا۔
اس طرح کے الفاظ اور تعبیرات کا استعمال اھل بیت (ع) کے ماننے والوں کے شایان شان نہیں ہے، ایسے لوگوں کو سمچھایا اور اس طرح کے کاموں سے روکا جائے۔ اھل بیت (ع) کی منزلت بیان کرنے کے اور بھی بہت سے معقول اور مناسب ذرایع موجود ہیں لہذا اس طرح کے باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر وہ حدیث کے صحیح ہونے کا ذکر نہ کرے اور وہ حدیث مشہور ہو تو اس کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
فقہ کے استاد کا ہاتھ چومنا جایز بلکہ مستحب ہے۔ بوسہ دینے والی روایات جا ذکر درج ذیل کتابوں میں ہے، مطالعہ کریں: بحار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۳۷ حدیث ۳۴ سے آخر تک، وسائل الشیعہ باب ۱۳۳، مستدرک الوسائل ابواب العشرہ باب ۱۱۶۔
جب بھی اسے لگے کہ وہ اس لباس کی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے تو وہ اسے پہن سکتا ہے، اور اگر اس نے اچھی طرح سے درس پڑھے ہیں تو لمعہ کے بعد اس امر کے لیے وقت مناسب ہے۔
مستعد اور ایسے لوگوں کے لیے جن کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے علم دین کے حصول کا واجب عینی ہونا بعید نہیں ہے۔
شہریہ سے مربوط مسائل کے لیے مراجع کرام کے دفتروں میں رجوع کریں اور ان کے حکم کے مطابق اس پر عمل کیا جائے، شہریہ کے مصرف کے لیے دفتر سے اجازت کا ہونا ضروری ہے۔
اگر مولویت کی صنف کی توہین شمار نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
موجودہ حالات میں دینی علوم کا حاصل کرنا مقدم ہے۔ البتہ ایک گروہ کا یونیورسٹی مین پڑھنا بھی ضروری ہے تا کہ اسلامی مقاشرہ کے تمام شعبہ جات اچھی طرح سے چل سکیں۔
امتحان میں نقل کرنا جایز نہیں ہے، اب چاہے وہ جگہ بیت المال سے چلتی ہو یا کسی اور مال سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ نقل کرنے کا نقصان خود نقل کرنے والے کو ہوتا ہے۔ اگر نمبر کا امتحان میں کوئی اثر نہ ہو تو اس مین نقل کرنا حرام نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ میں نے لکھا ہے تو چھوٹ کا مرتکم ہوا ہے جو کہ حرام ہے۔
شہریہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جو حوزہ میں درس پڑھتے ہیں۔ البتہ اگر شہریہ دینے والے بعض خاص موارد میں اجازت دیتے ہیں تو ان موارد میں لینا جایز ہوگا۔
ان امور مین والدین کی رضایت ضروری نہیں ہے، ان کی اطاعت ان موارد میں واجب ہے جہاں ان کی عدم اطاعت ان کے ازار و ازیت کا سبب ہو۔ ایسے مسائل جو انسان کی زندگی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسے نکاح و طلاق، ان میں بھی ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح سے علم دین کے حصول کے لیے، جو عصر حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے، والدین کی رضایت شرط نہیں ہے، اسی طرح سے علماء کے لباس پہننے کا بھی یہی حکم ہے مگر بہتر یہ ہے کہ تمام کاموں میں ان مرضی کو شامل کیا جائے۔