آوارہ کتوں کا ختم کرنا
ہمارے گاوں میں کچھ آوارہ کتے ہیں جو کھیتی کو برباد کرتے ہیں، انہیں مار دینا کیسا ہے؟
اگر ان سے مزاحمت ہو تو انہیں مار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر ان سے مزاحمت ہو تو انہیں مار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حیوانات کے پالنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن اس سے باایمان لوگوں کا کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیے؛ ہرچند کہ ان سے استفادہ کرنا خوبصورتی اور اچھی آواز سننے کے لئے ہی کیوںنہ ہو؛ اور اس بات کا بھی خیال رہے کہ یہ کام اسراف اور فضول خرچی کا باعث بھی نہ بنے۔
اگر اس کبوتر کا کوئی مالک نہیں تھا، یا وہ مشکوک الحال تھا تو اس کے پکڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کتّوں کے درمیان اس جہت سے فرق نہیں ہے اور معمولاً مسلمان حضرات کتّوں سے تین جگہوں پر استفادہ کرتے تھے: گھر کی پہرہ داری، باغ کی پہرہ داری اور ریوڑ کی پہرہ داری کے لئے۔ اور ہماری فقہی کتابوں میں بھی ان تینوں قسموں کے کتّوں کے بارے میں بحث ہوئی ہے، اور ان کو ”کلب الحارس“ ،”کلب الماشیہ“ اور ”کلب الحائط“ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
غیر موذی حیوانات کو اذیت دینے یا اُن کو مارنے میں اشکال ہے، اور ان سے ہمدردی کرنا اچھا ہے۔
یہ خرچ اگر اسراف کی حد تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر اس میں عقلائی غرض موجود ہو اور حد سے زیادہ آزار واذیّت کا سبب نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
اگر مزدوری کے عنوان سے لیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر ڈاکٹر کی بات پر یقین اور اطمینان حاصل ہو جائے تو کافی ہے اور اگر یقین نہ ہو تو کافی نہیں ہے۔
اگر طہارت اور نجاست کے مسائل کا خیال رکھا جائے اور گھر میں اس کا رہنا مفید ہو تو کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن وہ طریقہ جو کتّے کے سلسلے میں اہل مغرب اختیار کرتے ہیں اسلام اس کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
ہر طرح کا وہ عمل جو حیوانات کی نسل کے خاتمہ کا سبب ہو، اور اس سے معاشرے کو ضرریا نقصان پہنچے، جائز نہیں ہے۔
مذکورہ بالا فوائد کے تحت حیوانات کے پالنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی ممانعت ہے بلکہ اس میں مادی اور معنوی فوائد بھی پائے جاتے ہیں لیکن یہ کام ایسے ہونا چاہیے کہ اس سے اسراف یا حیوانات کو اذیت نہ پہنچے۔